گذشتہ سے پیوستہ کہانی ……….محمد شریف شکیب

وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں چینی بحران پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی،کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ذمہ قرار دیے جانے والوں کے خلاف مقدمات نیب اور ایف آئی اے کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے، کابینہ نے مفادات کے ٹکراؤ کا قانون جلد نافذ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ٹیکس چوری میں ملوث شوگر ملوں کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کئے جائیں گے اور آٹا بحران رپورٹ پر بھی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں ایس ای سی پی سمیت دیگر ریگولیٹرز کو چینی بحران کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ایک کاروباری طبقے نے پوری صنعت پر قبضہ کیا ہوا ہے، ادارہ جاتی اور ریگولیٹرز پر قبضے سے نظام کو مفلوج کرکے بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے مقدار میں کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں،شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور کچی پرچیوں پر گنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے،کچی پرچی کا رواج العربیہ مل نے ڈالا، العربیہ نے 78 کروڑ روپے شوگر کین کم شو کیا۔ العربیہ کے 75 فیصد شہباز شریف فیملی کے شیئر ہیں۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ پانچ سالوں میں شوگر ملوں کو 29ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، بائیس ارب کے ٹیکس دے کر بارہ ارب ری فنڈ کرالئے گئے۔رپورٹ میں جہانگیر ترین، مونس الہٰی، عمر شہریار، اومنی گروپ اور العربیہ شوگر ملز کو بحران میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد ملک کا سیاسی درجہ حرارت بھی گرمی کے ساتھ نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ایک دوسرے پر طنز اور الزامات کے نشتر چلائے جارہے ہیں۔پاکستان کا عام شہری کرپشن کا تازہ سکینڈل منظر عام پر لانے کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو دے رہا ہے۔اس رپورٹ کو پبلک کرنے کا حکومت کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان بھی پہنچنے کا احتمال ہے کیونکہ اس میں حکومتی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے اہم رہنما ملوث قرار دیئے گئے ہیں تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ شوگر سکینڈل منظر عام پر آنے اور اس میں ملوث لوگوں کی نشاندہی کا عوام کو کیافائدہ ہوگا؟کیا عوام اور غریب کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کو قرار واقعی سزا ملے گی؟کیاکسانوں کے نقصان کا ازالہ کیا جائے گا؟ کیا چینی پانچ سال پہلے کے نرخوں پر عوام کو دستیاب ہوگی؟بتایا جاتا ہے کہ چینی کی قیمت میں ایک روپے فی کلو اضافے سے شوگر ملوں کو ایک ارب روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ پچاس روپے کلو سے پچاسی روپے کلو ہونے پر شوگر ملز مافیا نے عوام کی جیبوں سے کتنی رقم نکالی اس کا حساب لگانا مشکل نہیں۔ایک دور وہ تھا کہ چینی کی قیمت میں چار آنے فی کلو اضافہ کرنے پر پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا اور ملک کے سربراہ کو مستعفی ہونا پڑا۔آج عام آدمی یہی سوچتا ہے اور حقیقت میں صحیح سوچتا ہے کہ چینی،آٹا اور پانامہ سکینڈل سیاست دانوں کے کھیل ہیں وہ بظاہر ایک دوسرے کو اسی طرح پچھاڑنا چاہتے ہیں مگر اندر سے قومی وسائل کی لوٹ مار اور عوام کی چمڑی ادھیڑنے کا مشن سب کا مشترکہ ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان چینی سکینڈل اور آٹا سکینڈل کے بااثر ملزمان کو قرار واقعی سزا دلواتے اور ان سے لوٹی ہوئی رقم نکلوا لیتے ہیں اور عوام کو مہنگا آٹا اور چینی خریدنے پرریلیف دیتے ہیں تو پھر حکومت کے اس نعرے پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ ملک میں تبدیلی آرہی ہے۔اقتدار کی کرسی پر بیٹھا فرد واحد کتنا ہی مخلص، دیانت دار، نڈر اورعام آدمی کا دکھ درد سمجھنے والا کیوں نہ ہو۔یہ ون مین آرمی بدی کی فوج ظفر موج سے کیسے اور کب تک لڑے گی۔پارلیمنٹ میں جتنے ممبران بیٹھے ہیں ملک کے تمام کارخانے اور جاگیریں ان کی ملکیت ہیں وہ قوم کی خاطر اپنا نقصان کبھی نہیں کرتے۔انہوں نے پیشگی احتیاط کے طور پر بیرون ملک بھی جاگیریں خریدی ہیں اگر ملک میں باد مخالف میں تندی آجائے تو یہ موسمی عقاب بیماری وغیرہ کا بہانہ بناکر راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اورعوام کو سبز باغ دکھانے کا موسم جب شروع ہوتا ہے تو واپس آکر سیاست سیاست کھیلتے ہیں۔باپ پر پابندی لگ جائے تو بہن، بھائی، بیٹا، بیٹی، نواسے نواسیاں، پوتے پوتیاں یہاں تک کہ داماد بھی خاندان کی سیاست کو بچانے کے لئے میدان میں نکل آتے ہیں یہی اس ملک کے عوام کے ساتھ گذشتہ سات عشروں سے ہورہا ہے۔اس لئے چینی اور آٹا سکینڈل کو لے کر عوام کو زیادہ جذباتی یا پرامید نہیں ہونا چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔