نوائے سُرود…..پریشانیوں کی وجہ……..شہزادی کوثر             

انسان بڑا جلد باز ہے،اپنے عمل،دعا،فیصلہ ،نتیجہ یا رائے ہر ایک میں عجلت کا مظاہرہ کر کے بعد میں پچھتاوے کی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ دعا کے وقت چاہتا ہے کہ ہماری آہ آسمان کے دروازوں سے گزر کر عرشِ الہی تک پہنچے اور فورا قبول بھی کیا جائے۔۔اگر قبولیت میں دیر ہو جائے تا جان حلق میں اٹکی ہوئی محسوس ہوتی ہے، کیوں کہ جینے کے لئے دعا اہم کرادا کرتی ہے،ہر طرف سے محرومیوں اور نا آسودگیوں کے حصار میں پھنسے ہوئے لوگ دعاوں پر بڑا زور دیتے ہیں ،تاہم یہ بات پیش نظر رہے کہ ہمارا کام دعا کرنا ہے اس کی قبولیت اوپر والے کے دستِ قدرت اور مشیت پر منحصر ہے جو غفور الرحیم ہے ،اس وقت انتہائی تحمل سے سوچنا چاہیئے کہ کیا مجھے مانگنے کا صحیح طریقہ آتا ہے ؟میرے دل میں تڑپ اور الفاظ میں وہ تاثیر ہے جو خالقِ کون و مکاں کو ہماری جانب متوجہ کر سکے ۔کیا میں نے درست الفاظ کا انتخاب کیا ہے ؟لہجے میں ندامت پیدا کرنے کے ساتھ اپنے اعمال میں بے چارگی و مجبوری ظاہر کی ہے؟جس ہستی کے سامنے میری فریاد جا رہی ہےاس کی تسبیح وتمحید میں کوئی کوتاہی تو نہیں ہو رہی؟ ان لوازمات کا خیال رکھا ہے تو ہماری دعائیں رد نہیں ہوں گی البتہ ان کی قبولیت کے بارے میں عجلت کا مظاہرہ انسان کو زیب نہیں دیتا۔ دعا کی قبولیت اعمال پر منحصر ہے،پہلے اپنےاعمال کی جانچ پھر جزا کی امید ہی دانشمندی ہے۔ ہمارے برے اعمال ہی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔غلط کام، برے خیالات اور حاسدانہ سوچ دل کی تنگی کا سبب بنتے ہیں ،تنگ دل میں ایمان کی روشنی  داخل نہیں ہوتی نتیجے میں کمزور ایمان کے ساتھ  مانگی ہوئی دعائیں کیوں کر قبولیت کے مقام کو پہنچ سکتی ہیں ؟ اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ کلمہ گو ہوں ایمان سے کس طرح محروم ہوں ؟ تو جواب یہ ہو گا کہ صاحب ِ ایمان ہونا ہم پر اوپر والے کا کرم ہے مگر صاحبِ عمل ہمیں خود بننا ہے،یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ اپنے ایمان و یقین کو عمل میں ڈھالنے میں کس حد تک کامیاب ۔اگر عمل سے محروم ہیں توجلد قبولیت کے لئے بضد کیوں ؟انسان کی اس کمزوری کا ذکرقرٓان مجید میں موجود ہے۔۔۔کہ انسان بنا ہے جلدی کا،اب دکھلاتا ہوںتم کو اپنی نشانیاں ،سو مجھ سے جلدی مت کرو۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح اپنی رائے کے معاملہ میں بھی جلد بازی سے کام لینا مومن کا شیوہ نہیں،کسی کے بارے میں کچھ سن کر ہی اس کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ صادر کرنا بھی درست نہیں،کیونکہ چہرہ کسی کی خوبی وخامی کا معیار نہیں ہوتا۔ ظاہر سے باطن کا اندازہ لگانا مشکل ہے،بظاہر ترش رو، سخت دل اور بد معاش نظر آنے والے کا خالق کے ساتھ کیسا رابطہ ہےیہ ہر کسی پر عیاں نہیں ہوتا اس لیئے جلد بازی میں رائے یا فیصلہ صادر کرنے سے اجتناب کرنا ہی افضل عمل ہے۔یہ بات بھی ہے کہ ہر انسان کے اندر گندگی خباثت اور کراہت ہوتی ہے یہ سب کچھ دوسرے کا تو دکھائی دیتا ہے خود میں نظر نہیں آتا اگر نظر ائے بھی تا دھیان نہیں دیا جاتا وجہ یہ ہے کہ انسان دوسروں کی ملامت ٓاسانی سے کر سکتا ہےلیکن خود پر ملامت کے کوڑے برسانا ٓاسان نہیں ہوتا  اس لیے دوسروں کے بارے میں احتیاط ضروری ہے۔   محاورہ کے طور پر بھی کہا جاتا ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا۔۔۔یعنی عجلت میں کیا گیا کام اور فیصلہ دونوں غلط ہوتے ہیں اگر غلط نہ بھی ہوں تو کوئی پیچیدگی اس میں ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔اس لیئے صبر سے اپنے فیصلے نمٹانے میں ہی عافیت ہے۔دنیاوی کامیابی اور ترقی کے لئے شارٹ کٹ کا استعمال سب سے ٓاسان طریقہ سمجھا جاتا ہے مگر دیرپا نہیں ہوتا ،لوگوں کی اکثریت ترقی کے معاملے میں اس کے استعمال سے نہیں ہچکچاتی۔کم سے کم وقت میں زیادہ پیسہ بنانے کے پیچھے یہی عمل کارفرما ہے جبکہ اصل کامیابی مسلسل محنت کے صبر ٓازما مراحل کے بعد حاصل ہوتی ہے جو مستقل خوشی کا زریعہ ہے اس کے برعکس جلد بازی سے حاصل ہونے والی مٹھاس جزوی اور وقتی تسکین ہے جو منہ میں کڑواہٹ چھوڑ کر غائب ہو جاتی ہے۔ حدیث میں ٓاتا ہے کہ تحمل مزاجی اللہ  کی طرف سے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔قرٓان کہتا ہے کہ انسان جلد باز مخلوق ہے۔۔۔۔۔ انسان کی پریشانیوں کا سبب بھی یہ ہے  کہ یہ کام کب اور کیسے ہوگا ؟ اگر نہیں ہوا تو کیا ہو گا؟ ۔۔۔۔۔اس قسم کے بہت سے سوالات ہمیں ہر وقت اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ ہمارا مسلہ یہ ہے کہ ہم حال میں نہیں رہتے بلکہمستقبل میں زندگی بسر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پریشانیوں میں کمی واقع نہیں ہوتی۔اپنے معاملات اللہ کے سپرد کرنا سب سے افضل عمل ہے، کہ اے پروردگار میرا یہ کام تیرے سپرد ہے اس کام میں میری مدد فرما۔ میری فکر دور کر دے۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جلد بازی مت کرو۔۔۔۔ کیونکہ ہر کام اپنے وقت پر ہی ہوتا ہے۔انسان اپنی خواہشات کی تکمیل میں ہمیشہ تیزی چاہتا ہے جس کی وجہ سے اپنا وقار اور عزت بھی گنوا دیتا ہے، اس سے بچنے کے لئے اپنی سوچ بدلنے کی دیر ہے،تحمل مزاجی اگر وہبی نہ ہو تو اکتسابی ہو ہی سکتی ہے جس کے لیے تھوڑی محنت درکار ہے۔ موجودہ دور میں انسان کو درپیش مسائل میں سے ایک انزائٹی کا ہے ہر چھوٹا بڑا مرد و عورت بری طرح اس کا شکارہے۔ دیکھا جائے تو اس کی کوئی بڑی وجہ نظر نہیں ٓاتی۔۔ کیونکہ ہم پریشانی کی کوئی وجہ ڈھونڈتے ہیں ،ایک ٹھوس بڑی وجہ،جسے اسانی سے دیکھا اور دکھایا جا سکے ،لیکن اپنی سوچ خیالات اور احساسات کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا۔ لوگوں کے ساتھ معاملات ،لین دین یا رشتہ داریاں ،معاشرے کے افراد کی زندگیوں سے اپنی زندگی کا موازنہ ہماری خود ساختہ پریشانی کی وجہ بنتے ہیں ۔اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے اور مسلسل محنت کے گُر سے ناواقفیت ،بغیر ہاتھ پیر چلائے دولت کمانے کی خواہش اور اپنے کاموں کا جلد از جلد کامیاب نتیجہ دیکھنے کی آرزوہمیں بری طرح سے انزائٹی کی گرفت میں دے دیتی ہے جس سے انسان مایوسیوں کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔