ایک استاد کا خط ……محمد شریف شکیب

پاکستان میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث لوگوں کے میل جول کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں شدت آئی ہے اب روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار سے زیادہ لوگ وائرس میں مبتلا ہو رہے ہیں جبکہ ہر روز سو سے زیادہ مریض لقمہ اجل بن رہے ہیں وزیراعظم نے عندیہ دیا ہے کہ عوام نے احتیاطی تدابیر کو دانستہ طور پر نظر انداز کردیا جس کی وجہ سے کورونا کی وباء قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے تاہم حکومت نے مکمل لاک ڈاؤن کی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔دوسری جانب پرائیویٹ سکولوں کے مالکان کی طرف سے ایس او پیز کے تحت سکول کھولنے کے مطالبات میں شدت آرہی ہے ہم نے انہی سطورمیں تعلیمی ادارے کھولنے کے نقصانات اوروالدین کے تحفظات کے بارے میں اپنی رائے پیش کی تھی کہ موجودہ حالات میں سکول کھولنے کا فیصلہ دانستہ خود کشی کے مترادف ہوگا۔ کیونکہ سینکڑوں کی تعداد میں بچوں سے ایس او پیز پر عمل درآمد کرانا ممکن ہی نہیں ہے۔والدین کو اپنے بچوں کے تعلیمی سال کے نقصان کا دکھ ضرور ہے مگر تعلیم ان کی زندگی سے زیادہ ضروری نہیں ہے۔ چارسدہ سے ایک استاد ہاشم قریشی نے سکول فیسوں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے حوالے سے والدین کے موقف پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے

بارہ نکات پر مشتمل اپنے طویل خط میں انہوں نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو لاک ڈاؤن کی وجہ سے درپیش مسائل کا ذکر کیا ہے ان کا موقف ہے کہ 14مارچ سے ملک بھر میں تعلیمی ادارے بند ہیں امتحانات منسوخ کئے گئے ہیں ستمبر تک سکول کھلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا،صوبے میں بیشتر پرائیویٹ سکول کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں ان کے کرائے، بجلی اور گیس کے بل، حکومت کے ٹیکسز اور ملازمین کی تنخواہیں سکول مالکان کو اپنی جیب سے دینے پڑتے ہیں۔ہاشم قریشی کا کہنا ہے کہ کسی سکول میں اگر پانچ سو بچے پڑھتے ہیں تو ان میں سے ساڑھے تین سو ہی پوری فیس دیتے ہیں جبکہ سگے بہن بھائیوں کو دی جانے والی رعایت، نادار بچوں کے لئے معافی، سٹاف اور یاردوستوں کی خاطر داری سمیت ڈیڑھ سو سے زیادہ بچوں سے یا تو فیس نہیں لی جاتی یا برائے نام فیس وصول کی جاتی ہے۔ فیسوں کی ماہانہ بنیادوں پروصولی کے باوجود پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لئے اپنے اخراجات پوری کرنا مشکل ہورہا تھا۔ اب چھ مہینے سکولوں کی بندش کی وجہ سے والدین پوری فیس ادا کرنے کو کسی صورت تیار نہیں ہوں گے، انہوں نے یہ شکوہ کیا کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے لاکھوں بچوں کو معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور فروغ تعلیم میں ان کا بنیادی کردار ہے اس کے باوجود ان کے ساتھ حکومت، والدین، سول سوسائٹی اور میڈیا کی طرف سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے صوبے میں دہشت گردی کی لہر کے دوران تعلیمی اداروں کونشانہ بنایاگیا، سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا، ادارے بند رہے اب لاک ڈاون کی صورت حال میں بھی تجارتی مراکز، صنعتی یونٹ، بازار، کاروباری ادارے اور دفاتر تو کھل گئے مگر تعلیمی اداروں پر بندش برقرار ہے۔ سکول مالکان مالی نقصانات کا بوجھ مزید برداشت کرنے سے قاصر ہیں اور ان میں سے اکثر متبادل روزگار کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔انہوں نے آخر میں یہ تجویز دی کہ ہمیں مفادات اور خوف کے خول سے باہر نکل کر مسائل کے حل کے لئے اپنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نجی تعلیمی ادارے معیاری تعلیم کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں تعلیمی بورڈز کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سالانہ نتائج اٹھاکر دیکھ لیں گذشتہ تیس چالیس سالوں سے تمام اہم پوزیشنیں نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے حصے میں آئی ہیں۔ان کے مقابلے میں سرکاری تعلیمی اداروں کو جو مراعات اور سہولیات حکومت دیتی ہے اس کا ایک فیصد بھی نجی تعلیمی اداروں کو نہیں ملتا۔ہم نے بارہا ارباب اختیار و اقتدار کے سامنے یہ تجویز رکھی ہے کہ نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے بھی اسی معاشرے کا حصہ اور اسی قوم کے بچے ہیں سرکارنہ صرف نجی تعلیمی اداروں بلکہ وہاں پڑھنے والے بچوں کے ساتھ بھی ہمیشہ امتیازی سلوک کرتی رہی ہے۔لاک ڈاؤن کی موجودہ صورتحال میں معاشرے کا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے۔ حکومت نے معاشرے کے بیشتر طبقوں کے لئے ریلیف کا اعلان کیا ہے جو محدود قومی وسائل کے اندر رہتے ہوئے قابل تحسین اقدام ہے ہم وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مطالبہ کرتے ہیں کہ نجی سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی لاک ڈاؤن کے عرصے کی فیسیں حکومت ادا کرے تاکہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو معیاری تعلیم دلانے والے شہریوں کو بھی ریلیف مل سکے اور قوم کے بچوں کو عصری تقاضوں کے مطابق معیاری تعلیم کی سہولت فراہم کرنے والے اداروں کے نقصان کا ازالہ بھی ہوسکے اور نجی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہزاروں ملازمین بھی اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلاسکیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔