20جون مہاجرین یاپناگزینوں کاعالمی دن۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

غربت کی ٹھنڈی چھاؤں میں یاد آئی اس کی دھوپ
قدر وطن ہوئی ہمیں ترک وطن کے بعد
پاکستان سمیت پوری دنیا میں پناہ گزینوں کا عالمی دن20جون کومنایاجاتاہے،اس دن کو منانے مقصد لوگوں کی توجہ ان لاکھوں مہاجرین یا پناہ گزینوں کی جانب مبذول کرانا ہے جوعلاقائی،نسلی تنازیات،تشدد، دہشت گردی جنگی تنازعات، ریاستی جبر سمیت دیگرکئی وجوہات کی بنا پربے گھرہوکر نقل مکانی کرتے ہیں اور دوسرے ممالک میں قائم کیمپوں میں زندگیاں گزارتے ہیں۔ اور ہمیں ان لاکھوں مہاجرین یا پناہ گزینوں کی حالت زار کا احساس ہوناچاہیے کہ جنہوں نے جنگ اور ظلم و ستم کے سبب اپنا گھربار چھوڑا ہے۔ ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔جنہوں نے تشدد اور اختلافی خطرات کے باعث اپنا آبائی وطن چھوڑکرپردیس کی زندگی بسرکررہے ہیں۔.اس دن کو منانے کا مقصد عوام کی توجہ ان لاکھوں پناہ گزینوں کی طرف دلوانا ہے جوکئی وجوہات کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کردوسرے ملکوں میں پناہ گزینی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔اورمقامی لوگوں میں سوچ بیدار کرنے کی ضرورت کہ وہ ان مہاجرین یاپناہ گزین بھائیوں کی ضرورتوں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔
مجھے بھی لمحہ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
ان بے بس لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو بھی بھول جاتے ہیں حالانکہ ان پناہ گرین میں سے ایک ایک بچے، ایک ایک خاتون اور ایک ایک انسان کی الگ الگ داستان ہے۔ان پناہ گزینوں یا مہاجرین کے دکھ و درد کا داستان وہاں ہی سے شروع ہو جاتا جب یہ لوگ اپنی آبائی سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین یا پناہ گزین موجود ہونے کی وجہ ہم ان سب کے دکھ و درد کو قریب سے نہیں جان سکتے
”اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جبری بے گھر کیے جانے والوں کی تعداد 70 ملین سے زیادہ ہو گئی ہے جو ایسے لوگوں کی اب تک سب سے بڑی تعداد ہے۔ شام سے افغانستان اور جنوبی سوڈان تک یہ صورتحال نمایاں ہے۔ آج دنیا میں مہاجرین کی نصف سے زیادہ تعداد کا تعلق انہی ممالک سے ہے۔ دنیا میں بے گھری کے اعتبار سے آج دوسرا بڑا بحران وینزویلا میں ہے جہاں چار ملین لوگوں کو اپنا گھر بار اور ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ یوں مہاجرت کے مسائل پر موثر، کارگر اور جامع انداز میں ردعمل کی اہمیت نمایاں ہوتی ہے۔“
مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا
20جون کویوم پناگزین کے طورپرقبول کیاجاتاہے لیکن ہمارے ساتھ ہی زندگی بسر کرنے والے ا نسانی نسل سے تعلق رکھنے ان افرادکے مسائل کو نظر اندازکیاجاتاہے۔ ہجرت دراصل انسان بہتر مستقبل بہتر حالات حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ وہ اس کا فیصلہ انتہائی مشکل حالات میں کرتا ہے جب اس کے پاس کوئی اور چارہ کار باقی نہیں بچتا ہے۔

کل اپنے شہر کی بس میں سوار ہوتے ہوئے
وہ دیکھتا تھا مجھے اشک بار ہوتے ہوئے
پرندے آئے تو گنبد پہ بیٹھ جائیں گے
نہیں شجر کی ضرورت مزار ہوتے ہوئے
وہ قید خانہ غنیمت تھا مجھ سے بے گھر کو
یہ ذہن ہی میں نہ آیا فرار ہوتے ہوئے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔