دھڑکنوں کی زبان۔۔۔ذرا سوچ سے آگے سوچو۔۔۔۔۔۔۔۔۔محمد جاوید حیات۔

ہماری سوچیں لازم ہے ہماری فہم و ادراک کے مطابق ہیں۔ہماری فہم وادراک لازم ہے بہت سطحی ہے۔۔ہم شاید بہت کچھ نہیں جانتے اور جاننے کی کوشش کرتے نہیں۔۔ہم شاید یہ بھی نہیں سمجھتے کہ ریاست کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں اس کی ڈیلومیسی کا کیا حال ہے۔دنیا کے پلیٹ فارم میں اس کی حیثیت کیا ہے۔اس کے دشمن کتنے ہیں۔۔ان دشمنوں کے عزایم کیا ہیں۔اس ریاست کو بچانے اس کو ترقی دینے اس کو مضبوط بنانے اس کو ناقابل تسخیر بنانے میں کتنی قربانیوں کی ضرورت ہے۔یہ سب ہماری سوچ سے باہر کی حالات ہیں۔۔یہ ہم سے ماوراء ہیں۔ہماری سوچوں کا محور بہت محدود ہے۔ہم اقتدار کی جنگ لڑتے ہیں۔ہم حمایت کی جھنجھٹ میں ہیں۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ہماری جعرافیاء حالات کیا ہیں ہم سوچتے نہیں ہیں ہمارے دفاعی تقاضے کیا ہیں۔ہم احساس نہیں کرتے کہ ہمارے سفارتی ضروریات کا رخ کس طرف ہے۔ہم گوادر کی اہمیت بھول جاتے ہیں ہم سی پیک کے خلاف سازشوں سے بے خبر ہیں ہم اپنے ارد گرد دشمنوں کے بنے ہوے جالوں کا ادراک نہیں کرتے۔۔ہم اپنی خفیہ ایجنسیوں کی جدوجہد سے بے خبر ہیں۔۔اس وجہ سے ہم ملک خداداد کے ساتھ اپنے اخلاص کو ثابت نہیں کر سکتے۔۔۔ہماری خود عرضی دشمن کو راستہ دیتی ہے۔۔قومیں اخلاص اور قربانیوں سے جنم لیتی ہیں۔اگر ہمارا پاکستان ہے تو ہم بھی زندہ ہیں ورنہ ہم نے افغانستان کو اپنے سامنیمٹتے دیکھا اس سمے مہاجر افغان نہ کوء بجٹ پہ اعتراض کرسکتا تھا نہ حکمرانوں پر۔۔۔ہماری آنکھوں کے سامنے کشمیر ہے۔۔وقت کا تقاضا ہے کہ حکمرانوں کو رعایا کی فکر ہو۔۔ان کے لیے قربانیاں دینا سیکھیں۔رعایا کو حکمرانوں کا پاس لحاظ ہو تاکہ دشمن کو موقع نہ مل سکے کہ تیرے خلاف سازشیں کر سکے۔۔اپنی سوچوں کی پروازیں بلند رکھیں تاکہ آزمایشوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر سکیں۔۔۔۔تن بے روح سے بے زار ہے حق۔۔۔خداے زندہ زندوں کا خدا ہے۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔