دھڑکنوں کی زبان .۔۔کیا ہم سوشل میڈیا میں “سوشل” ہیں ۔۔۔۔….۔۔۔۔محمد جاوید حیات

سوشل کا لفظ بڑے طمطراق سے ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔۔جو معاملہ فہم ‘سنجیدہ ‘ مہذب ‘سخن شناس ‘ میل جول کے ماہر اور شاید دلکش و دلچسپ ہوتے ہیں ۔۔یہ تعریف جس پہ سجے وہ سوشل ۔۔۔لیکن آج کے نیے ٹرم “سوشل میڈیا” نے ایک الگ دنیا جنم دی ہے ۔۔ایک پیچیدہ اور غیر محسوس دنیا ۔۔۔اس دنیا میں جو داخل ہوتا ہے اس کو احساس تک نہیں ہوتا کہ ایک اوپریشن ٹھیٹر ہے ۔۔اس میں انسان کی زات کھل جاتی ہے اوپن ہو جاتی ہے ۔۔اس کے پاس واقع میں تہذیب کتنی ہے ۔شرافت کتنی ہے ۔۔خاندانی بیگ گراونڈ کیا ہے ۔۔علم کتنا ہے ۔۔۔کمال کتنا ہے ۔۔مہارتیں کتنی ہیں ۔۔لیکن اس کا احساس بہت کم لوگوں کو ہو جاتا ہے ۔۔۔جب تک اس کی زات چھپی ہوئ تھی اس کا تعارف نہیں ہوا تھا اب اس کا کسی نہ کسی لحاظ سے تعارف ہوا ہے ۔سوشل میڈیا ایک دریا ہے ۔۔۔ایک حمام سا ۔۔اس لیےبے احتیاطی چند ساعتوں میں تباہی لاتی ہے اور شہرت بھی چند لمحوں میں کیش کیا جاتا ہے ۔۔کسی کو نقصان پہنچانا ہو تو بس ایک بےتکی پوسٹ کرو ۔۔ایک بےلا تحقیق اڑتی خبر اڑاو ۔۔اس کو ثابت کرنے میں صدیاں لگیں گی لیکن جس عذاب سے اس خبر کا شکار ہونے والا گزرے گا وہ وہی جانتا ہے ۔۔لیکن سوشل میڈیا میں اپنے اپ کو سوشل سمجھنے والا دل کا بوجھ ہلکا کرے گا ۔۔یہاں پر ہر قسم کی پوسٹیں پڑھنے کو ملتی ہیں ۔۔تنقید ‘ تحقیر ‘ نفرت بھری ‘ تاریخی معلوماتی ‘ شاعری ‘ پھر فوٹو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ایک ماں جی کو جب نومولود بچے کی تصویر دیکھائ گئ تو وہ خوش ہونے کی بجاے توبہ کرنے لگی ۔۔۔یا اللہ یہ کونسا وقت آن پہنچا ابھی بچہ دنیا میں آیا ہی نہیں کہ تصویر ساری دنیا کے سامنے ہے ۔۔۔بچہ پیدا کرنا عورت کی مجبوری ہے لیکن بیٹا اس کی عزت نفس کا خیال رکھو ۔۔۔گویا کہ اس ماں کے نزدیک زچہ کا احترام یہ ہے کہ نو مولود بچہ کسی کو نہ دیکھایا جاے ۔۔۔یہ ماں جی میرے مطابق سوشل ہے ۔۔۔بجاے اس کے کہ جو سوشل میڈیا میں گالیاں تک نکالتا ہے ۔۔۔ہم اپنے علاقے کی تہذیب و تمدن پر لکھتے وقت بھی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم سوشل میڈیا میں اپنا کونسا چہرہ دیکھا رہے ہیں ۔۔۔ہم شاعری کرتے ہیں ۔۔۔خوب بنا سنوار کر سوشل میڈیا میں نہیں ًڈالتے ۔۔ہم اردو لکھتے ہیں ۔۔۔احتیاط نہیں کرتے کہ غلط اردو لکھنے سے ہماری نالایقی اشکار ہوگی ۔۔ہم سیاسی تبصرہ کرتے ہیں لیکن سوچتے نہیں کہ کہیں کسی کی دلازاری تو نہیں ہوتی کہیں نفرت تو نہیں پھیلتی ۔۔۔ہم گروپ اور تنظیمیں بنا کر اس کی سرگرمیاں بیان کرتے ہیں لیکن اس میں بھی لا پرواہی ہے ۔ہم اسلام کی تبلیع و تشریح کرتے ہیں لیکن بہت مسلکی بن جاتے ہیں اس سے تفرقے کا احتمال ہوتا ہے ۔۔۔تو پھر ہم کیا سوشل میڈیا میں واقع میں سوشل ہیں ۔۔۔۔میری کم فہمی کہتی ہے کہ یہ سوشل میڈیا شیشے کا گھر ہے ۔۔آینہ خانہ ہے ۔۔۔۔ہم احتیاط کریں ایسا نہ ہو کہ کوئ ہمیں آینہ دیکھاے اور ہم برا ماننے سے بھی رہ جایں ۔۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔