دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔ہم گاؤں والے۔۔۔۔۔……۔۔۔۔محمد جاوید حیات

ہم گاؤں والے جب سکول میں تھے تو ہم سے مضمون لکھوایا جا تا۔۔۔گاؤں کی زندگی۔۔۔۔۔شہری زندگی۔۔۔۔گاؤں کی زندگی ہمارے سامنے تھی۔اس لیے ہم حیران تھے کہ اس مضمون میں بہت سارا جھوٹ بولا جاتا۔۔ہم نہ چاہتے ہوئے بھی مضمون زبانی یاد کر لیتے۔بس ہمیں مضمون یاد کرکے استاد کے ڈنڈے سے بچنا تھا۔امتحان میں یہ مضمون أتانہ أتا یہ قسمت کی بات تھی۔مضمون میں لکھا ہوتا۔گاؤں کی زندگی پر امن اورمثالی ہے۔۔لکھا جاتا۔گاؤں میں دشمنیاں نہیں ہوتیں۔۔

بعض کینہ حسد چاپلوسی چغل خوری جیسی خصلتوں سے گاؤں والے پاک ہوتے ہیں۔ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔اجتماعی سوچ ہوتی ہے۔۔معمولی مسئلہ بھی گاؤں کی عزت و ناموس کا مسئلہ ہوتا ہے۔۔گاؤں کی بیٹی پورے گاؤں کی بیٹی ہوتی ہے۔گاؤں کا بیٹا پورے گاؤں کا بیٹا ہوتاہے۔بیٹے کی پیدائش پر لوگ مبارک باد دینے پہنچ جاتے اور بزرگ کہتے ہیں کہ گاؤں کا بیٹا ہے۔کل ہمارا سہارا بنے گا۔گاؤں کے سارے کام اجتماعی طور پر حل ہوتے ہیں۔گاؤں میں دوستیاں رشتہ داریاں نبھائی جا تی ہیں۔دکھ سکھ بانٹتے ہیں۔أب و ہوا صاف ہوتی ہے عورت شرم حیاء کا پیکر ہوتی ہے۔مرد غیرت کا پتلا ہوتا ہے۔یہ سب ہم سے مضمون میں لکھوائی جاتے اور یاد کرائی جاتے۔لیکن اس مضمون میں ہم سے یہ کبھی نہیں لکھوایا جاتا کہ گاؤں والے بھی اس ملک کے باشندے ہیں ان کے بھی حقوق ہیں ان کا بھی اس ملک پر حق ہے۔۔ان کے ہاں بھی سڑک بننی ہے۔۔ان کے ہاں بھی زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر ہونی ہیں۔

ان کو بھی حق ہے کہ وہ اس ملک کے خزانے سے اپناحصہ چھین لے۔ان کے ہاں بھی ووٹ کی وہی حیثیت ہے جو کسی شہر والے کی ہے۔۔ہم مضمون میں لکھے ہوئے گاؤں کی مثالی زندگی صرف یاد کرتے لیکن جب بڑے ہوئے تو اپنی حماقت اور استاد کے خاکم بدہن جھوٹ پر ہنسی أتی ہے۔۔استاد یہ بھی لکھوا سکتاتھا کہ گاؤں ایسی جگہ ہے جہان پر زندگی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔وہاں پر سہولیات اور سہولیات نام کے افسانوں کی کرنیں کبھی نہیں پڑتیں۔گاؤں والے محروم ازلی ہیں۔وہ نمایندے أگے بھیجتے ہیں ان کو لولی پاپ سے بہلایا جاتا ہے پھر وہ اقتدار کا تاج پہننے کے بعد ان کی بے بسی بھول جاتے ہیں۔۔ہمارے استاد کو لکھنا چاہیے تھا۔کہ گاؤں والے زندگی کی رنگینیوں کے خواب جزیروں میں میٹھی نیند سو کے مر کھپ جاتے ہیں۔ان کو لکھنا چاہیے تھا کہ یہاں پر سڑک نام کی پکڈنڈیاں ہوتی ہیں۔۔بجلی نام کی أنکھ مچولی ہوتی ہے۔ہسپتال نام کے کھنڈر ہوتے ہیں۔سکول نام کی بوسیدہ عمارت کے اندر چند الفاظ کی رٹ لگا کر اورایسے خیالی مضامیں لکھوا کر اس کو تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔۔۔گرد أڑاتی پکڈیڈیوں کو سڑک کا نام دیا جاتا ہے۔گھنٹوں غایب سگنل والے ٹاور کو ٹیلیفون کا نام دیا جاتا ہے۔ٹیکسی کے کرایوں پر کنٹرول نہ ہونے کے حکم کو انتظامیہ اور محافظ کا نام دیا جا تا ہے۔۔۔استاد لکھوائے کہ اب گاؤں کی وہ مثالی زندگی کہیں نہیں یہاں پر بھی اندھے قتل ہوتے ہیں۔۔بے امنی ہے شاید اس لیے جابجا خود کشیاں ہوتی ہیں۔۔والدیں کو کوئی نہیں سنتا۔۔نیے کلچر کی یلغار نے بچوں کا مزاج ہی بدل دیا ہے۔۔۔استاد گاؤں والوں اور گاؤں کی زندگی کی جھوٹی تعریف نہ کرے۔۔۔ہم گاؤں کے بچے اب یہ مضمون یاد نہیں کرینگے۔۔ ہماری أنکھیں کھل گئے ہیں ہم سچ پر یقین کرنے لگے ہیں۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔