جمہوریتوں کا فرق…..محمد شریف شکیب

نیوزی لینڈ کے وزیرصحت ڈیوڈ کلارک لاک ڈان قواعد کی خلاف ورزی کرنے اور حکومت کے کورونا وائرس کے خلاف ردِ عمل پر تنقید کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں۔میڈیارپورٹس کے مطابق ڈیوڈ کلارک نے اپنے خاندان کو ساحل پر لے جا کر لاک ڈاؤن قواعد کی خلاف ورزی کی تھی کلارک کا کہنا تھا کہ اگر وہ اپنے عہدے پر کام جاری رکھتے ہیں تو یہ ان کی حکومت کے عالمی وبا کے خلاف ردِ عمل سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہو گا۔ وزیرا عظم نے تصدیق کی کہ انھوں نے کلارک کا استعفیٰ منظور کر لیاہے۔کورونا وائرس کی عالمی وبا سے نمٹنے کے حوالے سے نیوزی لینڈ کی کہانی کامیاب ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ملک میں اب تک صرف 1528 افراد اس وائرس سے متاثر اور صرف 22 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ گذشتہ ماہ وائرس کے پھیلا ؤکے بعد لگائی جانے والی پابندیاں ہٹا دی گئی ہیں اور ملک کو وائرس سے پاک قرار دے دیا گیاہے کلارک نے تسلیم کیا ہے کہ بطور وزیرِ صحت وہ اپنے فیصلوں کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں اوریہ مستعفی ہونے کا صحیح موقع ہے کیونکہ اس وقت ملک میں مقامی منتقلی کے کیسز نہیں ہیں۔کیویز وزیرصحت کا یہ طرزعمل ترقیافتہ اورترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں کے طرز عمل میں فرق کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔

ملک میں عالمی وباء کے پھیلنے کا خطرہ ٹلنے کے باوجود مروجہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا اعتراف کرتے ہوئے وزارت چھوڑ دینا یورپ میں کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ وہاں کے حکمرانوں اور عام لوگوں کے لئے ایک ہی قانون ہے دانستہ یا نادانستہ طور پر قانون توڑنے پر وہ رضاکارانہ طور پر خود کو قانون کے حوالے کرتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے یہاں غلطیوں کو تسلیم کرنے کا کوئی رواج نہیں، ان غلطیوں کے لئے مختلف بہانے اور جواز تلاش کئے جاتے ہیں طیارہ یا ٹرین کا حادثہ ہو تو اس محکمے کا ذمہ دار وزیر مستعفی ہونے کے بجائے یہ جواز پیش کرتا ہے کہ حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کا پائلٹ یا ٹرین کا ڈرائیور وہ نہیں کوئی اور تھا۔ گذشتہ چند سالوں میں طیاروں کے ہولناک حادثات ہوئے ہیں چترال سے اسلام آباد جانے والے طیارے اور لاہور سے کراچی جانے والے طیارے کو حادثہ پیش آنے کی ذمہ داری جاں بحق ہونے والے پائلٹوں پر ڈال کر فائلیں بند کردی گئیں۔امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ، نیدر لینڈ، جرمنی، فرانس، جاپان اور دیگر ترقیافتہ ممالک میں قانون بالادست ہوتا ہے شہری اس کے تابع ہوتے ہیں ہمارے ہاں شخصیات بالادست ہوتی ہیں اور قانون ان کے گھر کی لونڈی ہوتی ہے۔ جمہوریت کی ننھیال کہلانے والے برطانیہ میں وزیراعظم اپنی گاڑی خود چلاتا ہے اس کے آگے پیچھے ہوٹر بجاتی درجنوں گاڑیاں نہیں ہوتیں، وہ ٹریفک سگنل پر رک کر قطار میں اپنی باری کا انتظار کرتا ہے ہمارے ہاں بااثر شخصیات کے لئے ساری ٹریفک روک کر راستے کھول دیئے جاتے ہیں اور جب تک صاحب کا قافلہ نہیں گذرتا کسی کو آنکھ جھپکانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی۔یورپ کے حکمران خود کو عوام کے خادم اور ان کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں ہمارے ہاں حکمران خود کو مطلق العنان، سیاہ و سفید کا بلاشرکت غیرے مالک اور عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں لوگ ملک و قوم کی خدمت کے لئے سیاست میں آتے ہیں اور اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد دوبارہ اپنے اصل کام میں جت جاتے ہیں امریکہ کے پانچ سابق صدور ابھی حیات ہیں اقتدار کی کرسی سے اترنے کے بعد وہ سیاسی منظر سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے سیاسی افق پر کبھی تھے ہی نہیں، اگر مسند نشین صدر کو کسی معاملے پر ان سے مشاورت کرنی ہو تو خود ان کے پاس چلے جاتے ہیں ہمارے ہاں سیاست کو پیشے کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے اور پھر وہ موروثی پیشہ بن جاتا ہے،سیاسی خاندان کے تمام افراد سیاست پیشہ ہوتے ہیں باپ کے بعد بیٹا، پھر پوتا اور پڑپوتا اس کی جگہ لیتا ہے سیاست دان کی بیوی، بیٹے، بیٹیاں، پوتے، نواسے،بہو،سمدھی اور دیگر رشتہ دار بھی سیاست کار ہی ہوتے ہیں اقتدار کو وہ اپنے نجی کاروبار کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ہم نے پاکستان کے لئے نظام حکومت تو انگریزوں والا چن لیا ہے لیکن ہمارے ہاں رائج جمہوریت اور برطانیہ، نیوزی لینڈ، سوئزرلینڈ اور دیگر ترقیافتہ ممالک کی جمہوریتوں میں آسمان زمین کا فرق ہے۔ہمارا جمہوری نظام جمہوریت کے چربے کا بھی چربہ ہے۔ہمارے حکمران خود کو جمہوری کہلاتے ہوئے بڑے فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ان کا کردار، طرز عمل، طرز سیاست اور سوچ جمہوریت کے یکسر منافی ہے یہی وجہ ہے کہ عوام کا اس چربہ جمہوریت پر سے اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔