ای او بی آئی پنشن…..محمد شریف شکیب

وفاقی حکومت نے ایمپلائز اولڈ ایج بنیفٹ پنشن میں اضافے کا باقاعدہ اعلامیہ جاری کردیا ہے اضافے کا اطلاق یکم جنوری 2020سے ہوگا۔وفاقی کابینہ نے ای او بی آئی پنشن میں دو ہزار روپے تک کا اضافہ کرکے ماہانہ 6500سے بڑھا کر 8500روپے کرنے کی منظوری دی تھی وفاقی وزارت برائے سمندرپارپا کستانیز اور انسانی وسائل کی جانب سے اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس کے بعد کابینہ کا فیصلہ فوری نافذالعمل ہوگیا ہے اعلامیہ کے مطابق ای او بی آئی پنشن لینے والوں کو یکم اگست سے اضافی پنشن سات مہینوں کے بقایاجات سمیت اداکی جائے گی۔

ای او بی آئی پنشن پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے افراد کو ساٹھ سال کی عمر کے بعد دی جاتی ہے جس کے لئے شرط یہ رکھی گئی ہے کہ مذکورہ فرد کی تنخواہ سیکم از کم پندرہ سال تک ای او بی آئی کی مد میں کٹوتی کی گئی ہو۔ہونا تو یہ چاہئے کہ پرائیویٹ ادارے کا ملازم ساٹھ سال کی عمرتک پہنچنے کے بعد جب پنشن کا حق دار قرار پائے تو ضروری کاغذی کاروائی ایک ماہ کے اندر مکمل کرکے اسے پنشن کی ادائیگی شروع کردی جائے۔تاہم پنشن کی ادائیگی کے نظام میں سقم کی وجہ سے بزرگ محنت کشوں کو ڈھائی تین سال تک پنشن کی ادائیگی کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔حالانکہ جس ادارے میں ملازم ایک بار ای او بی آئی کے ساتھ رجسٹرڈ ہوجائے اس کی تنخواہ سے ہر مہینے کٹوتی ہوتی ہے اور اس کا ریکارڈ ای او بی آئی کے پاس موجود ہوتا ہے۔ساٹھ سال پورے ہونے پر مذکورہ ادارہ ای او بی آئی کے دفتر کو تحریری طور پر اطلاع دے دیتا ہے صرف ایک گھنٹے میں پنشنر کی فائل تیار ہوسکتی ہے اور ایک ہفتے کے اندر اس کا اے ٹی ایم کارڈ بن سکتا ہے مگر یہاں پنشنرز کو درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں بار دفتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں جتنا عرصہ اس نے ملازمت کی ہے ان سالوں اور مہینوں کے حساب سے جمع کرائی گئی رقم کی پوری فہرست مہیا کرنی پڑتی ہے وفاقی حکومت کو ای او بی آئی پنشن کے نظام میں موجود سقم کو دور کرکے بزرگ شہریوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔مہنگائی کے اس دور میں بزرگ شہریوں کو اب تک جو پنشن دی جاتی تھی وہ ماہانہ اخراجات کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھی پانچ ہزار دو سو روپے ماہانہ پنشن سے ایک ہفتے کا راشن ہی مل سکتا ہے جن لوگوں کے بچے سکول، کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم ہوں ان کے تعلیمی اخراجات، کچن کا خرچہ، غمی خوشی، اوڑھنا بچھوناسمیت ایک متوسط خاندان کے ماہانہ اخراجات پچیس سے تیس ہزار روپے بنتے ہیں موجودہ حکومت نے گذشتہ سال ای او بی آئی پنشن کی رقم پانچ ہزار دو سو سے بڑھا کر ساڑھے چھ ہزار کردی تھی اب مزید دو ہزار روپے اضافے کے ساتھ ساڑھے آٹھ ہزار روپے ماہانہ کردی ہے حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اگلے تین سالوں کے اندر ای او بی آئی پنشن کی رقم ماہانہ پندرہ ہزار کردی جائے گی۔جو یقیناً بزرگ شہریوں کے لئے ایک بڑا ریلیف ہے۔سرکاری اداروں کے ملازمین اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کی تنخواہوں اور مراعات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

سرکاری ملازم جب ریٹائر ہوتا ہے تو اسے چالیس پچاس لاکھ روپے ملتے ہیں اور پھر پوری زندگی پنشن کی مد میں اتنی رقم ماہانہ ملتی ہے کہ وہ اپنی زندگی سکون سے گذار سکتا ہے جبکہ پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر کچھ بھی نہیں ملتا اور اولڈ ایج پنشن کی مد میں جو کچھ ملتا ہے اس سے سفید پوشی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔پرائیویٹ اداروں میں خدمات انجام دینے والے بھی اسی ملک کے شہری ہیں اگر حکومت انہیں سرکاری ملازمین کے مساوی مراعات نہیں دے سکتی تو پنشن کی مد میں اتنا کچھ اسے ضرور ملنا چاہئے کہ وہ گھر کا چولہا گرم رکھنے کے لئے قرضہ لینے یا بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہو۔حکومت قانون سازی کے ذریعے پرائیویٹ اداروں کو بھی اس بات کا پابند بنائے کہ وہ دس پندرہ سال ملازمت کے بعد ریٹائر ہونے والے ملازمین کو ہرسال کی ایک تنخواہ کے مساوی رقم یک مشت ادا کرے تاکہ وہ کم از کم ٹھیلہ یا ریڑھی لگاکر محنت مزدوری کرنے کے قابل ہوں۔ایک فلاحی ریاست میں بزرگ شہریوں کی کفالت اور ان کی دیکھ بھال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے یہی دین اسلام کی تعلیم بھی ہے حکومت بزرگ شہریوں کے لئے گاہے بگاہے سہولیات کا اعلان تو کرتی ہے مگر سہولیات کے وہ اعلانات اکثر فائلوں میں ہی مدفون ہوتے ہیں۔موجودہ حکومت نے بزرگ شہریوں کو ای او بی آئی کارڈ پر یوٹیلٹی سٹور، لائبریری، پبلک پارک اور دیگر مقامات پر خصوصی مراعات دینے کا اعلان تو کیا ہے۔مگر ان اعلانات پر عمل درآمد بھی حکومت کی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔