”عورت“ تحریر:صباحت رحیم بیگ۔۔۔

جب ہوس گھائل کرے مجھ کو نظر کے تیر سے
اس گھڑی کرتی ہوں شکوہ کاتب تقدیر سے
”عورت“
پیدا کرتی ہے،پرورش کرتی ہے،بولنا سیکھاتی ہے
”عورت”
افسوس تمہاری گالیوں میں اسی کا نام ہوتا ہے
کبھی سوچا ہے لڑکی ہونا کتنا مشکل ہے
نظر چاہے جس کی بھی برُی ہو غلطی چاہے جس کی بھی ہو برُا لڑکی کو ہی کہا جائے گا
اگر کسی سے بات نہیں کی جائے چپ رہا جائے تو پتہ ہے لوگ کیا کہتے ہیں ”دیکھو تو اکڑ زرہ اس کی ہے کیا اس میں جو اکڑ رہی ہے
اگر کسی سے بات کی جائے تو کہتے ہیں ارے کس پاگل کی بات کر رہے ہو وہ تو ہر کسی سے فری ہے
اگر لڑکی فیشن کرتی ہے تو کہتے ہیں کسی کو دکھانے کے لئے کرتی ہے
اگر کوئی لڑکی سمپل رہتی ہے تو کہتے ہیں کہ اس کی تو شکل دیکھنے لائق نہیں
کوئی اداس رہتی ہے تو کہتے ہیں کہ ضرور عشق میں دھوکہ کھایا ہوگا
اگر کوئی شوشل میڈیا یوز کرتی ہے تو کہتے ہیں کہ اس کے تو کتنے یار ہونگے
: ہائے مجھ عورت کی قسمت کیا بتاؤں کیا کہوں
کاٹتا ہے میری شہہ رگ باپ بھی شمشیر سے
ہر شخص بیٹی سے کہتا ہے کہ گھر کی عزت خراب مت کرنا کبھی بیٹے سے کیوں نہیں کہتے کہ کسی کے گھر کی عزت برباد مت کرنا
حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا کے علاوہ دنیا میں کوئی نفس ایسا نہیں آیا جسے ماں نے جنم نہ دیا ہو اگر ہمارے لئے ماں محترم ہے تو دنیا کی ہر خاتون محترم ہونی چاہیے عورت کو حقیر اور کمزور سمجھنا عہد جاہلیت کے شرمناک رواجوں میں سے ایک ہے
عورت ہر روپ اور ہر رشتے میں عزت و وقار کی علامت،وفاداری اور ایثار کا پیکر ہے

حوروں کے خواب دیکھنے والوں سے بس یہی کہونگی کہ پہلے عورت کی عزت کرنا تو سیکھ لو
لڑکی کو چاہیے کہ باپردہ رہیے اپنا ضمیر اور نیت صاف رکھے تو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ لوگ آپ کو اچھا کہے یا برُا کیونکہ انسان نیت اور شریعت کے اصولوں پر جانچے جاتے ہیں دوسروں کی سوچ پر نہیں

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔