عیدالاضحی کے موقع پر سیر کے لئے چترال آنے والے تقریباً پندرہ ہزار سیاحوں کو لوئر چترال انتظامیہ نے لواری ٹنل سے واپس کردیا

چترال (محکم الدین) عیدالاضحی کے موقع پر سیاحت کی غرض سے چترال آنے والے تقریباً پندرہ ہزار سیاحوں کو لوئر چترال انتظامیہ نے لواری ٹنل سے واپس کر دیا ہے۔ دو ہزار گاڑیوں اور ساڑھے تین سو موٹر سائیکلوں پر مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے سیاح کرونا وائرس لاک ڈاون سے تنگ آکر عید کی چھٹیاں گزارنے اور چترال کے سیاحتی مقامات کا لطف اٹھانے چترال آرہے تھے۔ کہ لواری ٹنل پر انہیں چترال میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انتظامیہ ذرائع کے مطابق لواری ٹنل پر صرف ان افراد کو چترال داخلے کی اجازت دی گئی۔ جن کے چترال میں رشتے داریاں ہیں اور وہ رشتے داروں سے عید ملنے و غمی خوشی میں شریک ہونے کیلئے آرہے تھے۔ تاہم بعض ذرائع نے کہا ہے کہ چترال آنے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں۔جن کی انتظامیہ کے آفیسران کے ساتھ تعلق رشتے داری اور پہچان ہے۔ اورانتظامیہ انہیں این او سی جاری کیا ہے، یاچیک پوسٹوں پر فون کرکے انہیں جانے دینے کا حکم دیا ہے۔

عید کے موقع پر سیاحوں پر پابندی نے جہاں اور سیاحتی مقامات کے روز گار کو متاثر کیا ہے۔ وہاں. چترال کی کالاش وادیاں سب سے زیادہ متا ثر ہوئی ہیں۔ حالیہ عید واحد امید تھی، جس کے دوران سیاحوں کی چترال اور کالاش ویلیز آمد کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ اور سیاحت کے تمام سٹیک ہولڈرز کو امید تھی، کہ سیزن کے آخری حصے میں اگر پابندی اٹھا لی جائے۔ تو سیاحتی آمدنی سے ان کے چولہے دوبارہ جلنے کے قابل ہوں گے لیکن انہیں شدید افسوس ہے کہ حکومت نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
بمبوریت کے مقام انیژ میں جیم اینڈ جیولری و کالاش ہینڈی کرافٹس کا کاروبار کرنے والے شفیق اللہ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا لاک ڈاون کے نتیجے میں معاشی حالات اتنے سنگین ہو گئے ہیں کہ صرف قرضوں پر گذارہ کر رہے ہیں جبکہ پہلے ہم گرمیوں کے موسم میں سیاحتی آمدنی سے اپنے بال بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے کر رہے تھے۔ گذشتہ سال حکومت نے سیاحت کی ترقی کے حوالے سے اعلانات کئے۔ اس پر اچھی آمدنی کی اُمید میں سیاحوں کی دلچسپی کے ہینڈی کرافٹس خرید کر سٹاک کیا۔ تاکہ سامان کی کمی نہ آئے لیکن کرونا لاک ڈاون سے سیاحت رک گئی اور سیاح نہ آنے کی وجہ سے سرمایہ ہینڈی کرافٹس کی صورت میں جمود کا شکار ہوا۔ ہمیں حالیہ عید پر کچھ کمانے کی امید تھی لیکن حکومت کی طرف سے پابندی سے یہ امید بھی خوش فہمی ہی ثابت ہوئی۔ عید آئی لیکن سیاح نہیں آئے۔ اس سے کالاش کمیونٹی کی ان ہنر مندخواتین کو بھی مالی طور پر زبردست نقصان پہنچا ہے جو کالاش ہینڈی کرافٹس تیار کرکے فروخت کرتی ہیں اور اس آمدنی کو اپنے گھر کے اخراجات اور بچوں کی تعلیم و صحت پر خرچ کرتی ہیں۔ جبکہ اب یہ آمدنی مکمل طور پر رک گئی ہے۔ ایسے میں بال بچوں کی پرورش کیسے کی جائے۔

ایک مقامی ہوٹل مالک ظفر نے کہا کہ عام سیاحوں کیلئے کالاش ویلیز کو نو گو ائریا بنایا گیا ہے لیکن انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے سیاح کالاش گھروں تک جاتے ہیں یہ کہاں کا قانون ہے اگر کالاش کمیونٹی کو بچانے کیلئے یہ اقدامات کئے جا رہے ہیں توہر قسم کی غیر مقامی ا فراد کو ویلیزمیں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ چاہے وہ حکومتی مہمان ہی کیوں نہ ہوں لیکن ایسا ہو نہیں رہا اور کالاش کمیونٹی کے لوگ بھی بڑی تعداد میں روزانہ اپنی ملازمت اور کاروبار کے سلسلے میں چترال شہر جاتے اور آتے ہیں اسی طرح سیاحوں کو بھی ایس او پی کے تحت سیاحت کی اجازت ملنی چاہئیے۔ حالیہ عید میں پندرہ ہزارافراد کو راستے سے واپس کرنا سیاحتی طور پر بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ سیاحت سے وابستہ لوگوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے مترادف ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔