دادبیداد…..بدلتے مو سموں کی سیر…ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

مو سموں کا بدلنا آج کل اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اس کے لئے ایک الگ وزارت قائم کی گئی ہے جسے بدلتے مو سموں کی وزارت کا نام دیا گیا ہے اب تک ہم نے بدلتے مو سموں کو صرف منیر نیا زی کی نظم میں پڑ ھ اور سن لیا تھا ”بدلتے مو سموں کی سیر میں دل کو لگا نا ہو، ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“ ویسے عوام کی سہو لت کے لئے انگریز ی نام کلا ئمیٹ چینج کا اردو ترجمہ مو سمیاتی تغیّر کیاجا تا ہے جو اردو، فارسی اور عر بی کا ملغو بہ ہونے کے باوجو د انگریزی نا م سے زیا دہ مشکل اور پیچیدہ ہے

بدلتے مو سموں کی کہا نی یہ ہے کہ 200سال پہلے کا ر خا نے کم تھے، مو ٹر گاڑیاں کم تھیں آبادی کم تھی دھواں کم تھا اس لئے آسمان صاف تھا رات کو دیہات سے شہروں تک ہر جگہ جگ مگ کر تے خو ب صورت تارے بکثرت نظر آتے تھے 200سال بعد 1820سے2020تک آتے آتے آبادی میں کئی گنا اضا فہ ہوا، کا رخا نوں میں کئی گنا اضا فہ ہوا، موٹر گاڑیوں میں کئی گنا اضا فہ ہوا 1820ء میں جس گاوں کے اندر سائکل بھی نہیں تھی 2020میں اس گاوں کے اندر سینکڑوں موٹر گاڑیاں گھومتی ہیں کئی کار خا نوں کی چمنیاں دھواں چھوڑ تی ہیں چنا نچہ آسمان دھوئیں سے بھر گیا ہے اور تارے نظر نہیں آتے یہ سادہ سی بات ہے اس کو تھوڑا سا پھیلا کر گنجلک بنا دیا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ 200سال پہلے فطرت کا حسن قائم تھا ہوائیں مشکبار تھیں زمین اور آسمان کے بیچ میں دھواں نہیں بھرا تھا اس لئے دھوپ کے وقت دھوپ پڑتی تھی بارش کے وقت مینہ برستا تھا، ہوائیں اپنے وقت پر چلتی تھیں اندھیوں کا اپنا نظام لاوقات ہوا کرتا تھا کارخا نوں کی چمنیوں اور مو ٹر گاڑیوں کے سائینلسروں نے فطرت کے کام میں بے جا مدا خلت نہیں کی تھی اس لئے ہر مو سم کا اپنا مزہ ہوا کر تا تھا اب حضرت انسان کی بے جا مدا خلت نے فطرت کے نظام میں بگاڑ پید اکیا ہے،سائنسدان اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ فطرت نے سورج اور زمین کے درمیاں اوزون (Ozone) کی مو ٹی تہہ بچھا ئی تھی جو سورج کی تیز حرارت کو زمین تک آنے نہیں دیتی تھی دھوئیں کے بڑ ھتے ہوئے مر غو لو ں کی وجہ سے اوزوں کی تہہ باریک سے باریک تر ہو تی گئی یہاں تک کہ جگہ جگہ سے چھلنی ہو گئی سورج کی گرم شعاعوں نے پہا ڑوں پر پڑے ہوئے منجمد برف کے کروڑ ہا سال پرانے ذخیروں کو پگھلا نا شروع کیا برف زاروں کے پھگلنے سے سیلا بوں نے بستیوں کا رخ کیا اور بستیوں میں تبا ہی پھیل گئی پا نی کی قلت اور نایا بی کا خطرہ پیدا ہو گیا انسا نی بستی کے فضلات نے سمندروں کو مچھلیوں اور دیگر آبی مخلوق کے لئے زہر سے بھر دیا قرآن پا ک میں سورہ الروم کی آیت نمبر 41میں ارشاد ہو تا ہے ”انسانوں کے کر تو توں نے خشکی سے لیکر سمندروں تک فساد بر پا کر دیا“ یہ وہی فساد ہے جس کی طرف قرآن پا ک میں اشارہ کیا گیا ہے ہمارے حلقہ احباب میں ایک شاہ صاحب ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ اچھی خبر میں برائی کا کوئی پہلو ڈھونڈ کر لاتے ہیں اور بری خبر سے اچھا ئی کا کوئی پہلو نکا ل کر سا منے رکھ دیتے ہیں جب کورونا کی وبا ایشیا سے لیکر افریقہ، آسٹریلیا، یو رپ اور امریکہ تک پھیل گئی بیماروں کی تعداد کروڑوں میں اور مر نے والوں کی تعداد لا کھوں میں شمار کی گئی تو شاہ صاحب نے خبروں کا نچوڑ پیش کر تے ہوئے کہا کہ اس عذاب میں ثواب کا ایک پہلو بھی چھپا ہوا ہے وبائی مر ض کی وجہ سے دنیا بھر لا ک ڈاون ہوا کا رخانے بند ہوئے مو ٹر گاڑیوں کے چلنے پھر نے میں 80فیصد کمی آئی مارکیٹوں کو بند کیا گیا شہریوں کو قرنطینہ کے نام پر گھروں میں محصور کیا گیا تودنیا کا نصف سے زیا دہ دھواں ختم ہو ا گلی کو چوں میں ٹھو س اور مائع فضلہ نصف سے بھی کم رہ گیا اس کا مثبت اثر یوں دیکھا گیا کہ جو پلا سٹک اور غلا ظت سمندروں میں بہا دیا جا تا تھا اُس کی مقدار میں 80فیصد کمی آئی دھواں کم ہونے سے اوزوں کی تہہ دوبارہ سنبھلنے لگی سمندروں میں ڈالی جا نے والی غلا ظت کی مقدار کم ہونے سے سمندر ی مخلوق نے ارام اور سُکھ کا سانس لیا بنی نو ع انسان کے لئے جس وباء کو مصیبت کا نام دیا گیا دیگر مخلوقات کے لئے وہی وباء رحمت ثا بت ہوئی چنا نچہ دو تین سا لوں تک لاک ڈاون رہا تو دنیا کا مو سم اپنی فطرتی نہج پر آجائے گا بارش کے وقت بارش ہو گی، آندھی اپنے وقت پر آئیگی دھوپ اپنے وقت پر ہو گی اور ہوائیں اپنے وقت پر چلینگی فطرت کے نظام میں انسانی مداخلت بند ہو گی تو فطرت کا نظام اپنے جو بن پر ہو گا کسی کو مو سمیا تی تغیر یا بدلتے مو سموں کی شکا یت نہیں ہو گی جیسا کہ شاعر نے کہا ؎
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
یا دوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جا تی ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔