دادبیداد…..جمہوریت کی نر سری…ڈاکٹرعنا یت اللہ فیضی

ضلع کونسل سے ویلیج کونسل تک مقا می حکومتوں کے نظام کو جمہوریت کی نر سری کہا جا تا ہے لیکن وطن عزیز پا کستان میں اس کو آمریت کی نر سری کا درجہ حا صل ہے کیونکہ مقا می حکومتیں صر ف آمریت میں پر وان چڑھتی ہیں جمہوریت آتے ہی مقا می حکومتوں کے پر کا ٹ دیئے جا تے ہیں خدا نا خواستہ جمہوریت جڑ پکڑ لے تو مقا می حکومتوں کا دھڑن تختہ ہو جا تا ہے مو جودہ حا لات بھی ایسے ہی ہیں ایک دن خبر آتی ہے کہ مقا می حکو متوں کے انتخا بات دو سال کے لئے ملتوی کئے گئے دوسرے دن خبر آتی ہے کہ الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کا حکم دیدیا پھر خبر آتی ہے کہ حکومت بلدیا تی انتخا بات کرانے پر غور کر رہی ہے اگلے دن خبر آتی ہے کہ حکومت نے اس خبر کی تر دید کی ہے قوی امکان یہ ہے کہ مو جو دہ حکومت بلدیا تی انتخا بات ضرور کروائے گی کیونکہ وزیر اعظم عمران خان نے مینا ر پا کستان پر جس منشور کا اعلا ن کیا اُس میں سب سے پہلا نکتہ یہی تھا مینا ر پا کستان کے جلسے کو اخبارات نے سو نا می کا نام دیا سو نا می سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں رابطہ سڑک بنانا، نلکے لگا نا، نا لیوں کو پختہ کرنا، گلیوں میں روشنی لانا قومی اسمبلی یا صو بائی اسمبلی کے ممبر کا کام نہیں یہ یونین کونسل کے ممبر کا کام ہے پا کستان تحریک انصاف کی حکومت آئیگی تو تر قیا تی فنڈ بلدیا تی اداروں کو ملینگے، عوامی مسائل عوام کی دہلیز پر حل کئے جائینگے ہم بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنائینگے اس اعلا ن پر جو تا لیاں بجا ئی گئیں اُن کی گونج اب بھی مینار پاکستان کے اطراف میں سنا ئی دیتی ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان پر یہ تہمت کوئی نہیں لگا سکتا کہ آپ مقا می حکومتوں کے خلا ف ہیں 1975ء میں پیر پگا ڑا سے پو چھا گیا کہ بلدیا تی انتخا بات کب ہو نگے انہوں نے بلا تا مل کسی توقف کے بغیر کہا ”جب مار شل لاء آئے گا تب بلدیا تی انتخا بات ہونگے“ پیر پگا ڑا کو معلوم تھا کہ بنیا دی جمہوریتوں کا جو نظام فیلڈ مار شل ایوب خان نے متعارف کرایا تھا اور مختصر اً جس کو بی ڈی کہا جاتا تھا وہ 1969ء میں ختم ہو گیا 1970ء کے بعد نئے حا لات پیدا ہوئے اور ملک میں صدارتی نظام کی جگہ پا رلیمانی نظام آگیا اس نظام میں کوئی بی ڈی کا نام بھی نہیں لے سکتا اس لئے انہوں نے ما رشل لاء کی پیش گوئی کی پیر پگا ڑا کی دعا ووں سے دو سال بعد ما ر شل لا ء آگیا اور 1979ء میں بلدیا تی نظام بھی لا یا گیا یہ بی ڈی کا دوسرا جنم تھا جس کے اوپر جنرل ضیاء الحق کا سایہ تھا گذشتہ 50سالوں میں جو لوگ ہماری اسمبلیوں میں آئے اور وزارتوں پر فائز ہوئے ان میں غا لب اکثریت بلدیا تی اداروں کی نر سری کے ذریعے جمہوری قا فلے میں شامل ہوئی تھی مو جودہ حکمرانوں میں چوہدری شجا عت حسین اورسید فخر امام بی ڈی کے زمانے میں وارد سیا ست ہوئے، چوہدری پر ویز الٰہی،شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی جنرل ضیا ء الحق کے دور میں ضلعی کونسلوں کے ذریعے سیا ست میں آئے یہ نما یاں لو گ ہیں ریکارڈ رکھنے والوں کے پاس اور بھی بے شمار نام ہو نگے آج بھی اگر حا فظ حسین احمد یا شیخ رشید سے سوال کیا جائے کہ بلدیاتی انتخا بات کب ہونگے تو ان کا جواب پیر پگا ڑا کے 1975والے جواب سے مختلف نہیں ہوگا یہ تلخ حقیقت ہے کہ قومی اسمبلی اور صو بائی اسمبلیوں کے انتخا بات کے بعد لو کل گورنمنٹ کا سر کچل کر رکھ دیا جاتا ہے اور لو کل گورنمنٹ کو سر اٹھا نے کے لئے مار شل لاء کا انتظار کرنا پڑ تا ہے 2015ء میں خیبر پختونخوا کے اندر مقا می حکومتوں کا جونیا نظام لو کل گورنمنٹ آرڈر 2013کے تحت لا یا گیا اس میں نیبر ہُڈ کو نسلوں اور ویلیج کونسلوں کا انقلا بی تصور مو جود تھا ان کونسلوں کے ذریعے 4ہزار سے لیکر 6ہزار تک کی آبادی کو گاوں کی سطح پر ایک خود مختار تر قیا تی اکائی دی گئی تھی قانون کی رو سے یہ گنجا ئش رکھی گئی تھی کہ ضلع کی سطح پر تر قیا تی وسائل فنڈ اور پر اجیکٹ کا 33فیصد براہ راست نیبر ہُڈ کونسلوں اور ویلیج کونسلوں کو ملے گا اگر ضلع میں ایک کروڑ روپیہ آتا ہے تو اس میں سے 33لاکھ روپے دیہی کونسلوں کے ذریعے خر چ ہونگے یہ ایسا شفاف سسٹم تھا جس میں عوام خود احتساب کا کام کرتے تھے مثلا ً یو نین کونسل کی 15ہزار آبادی میں پتہ نہیں لگتا تھا کہ کتنا فنڈ آیا اور کہاں خر چ ہوا نیز جہاں خر چ ہوا کسطرح خرچ ہوا اس کے مقا بلے میں 4ہزار کی آبا دی میں بڑی آسا نی سے پتہ لگا یا جا سکتا ہے کہ کتنا پیسہ آیا کیسے خر چ ہوا جو سکیم دی گئی کیا یہی عوام کی اولین ترجیح تھی؟ نیز سوشل رجسٹریشن کے لئے گاوں کے لو گوں کو دور دراز سفر کرنا نہیں پڑ تا، پیدائش، اموات، نکا ح اور طلا ق کی رجسٹریشن گا وں کے اندر بڑی آسا نی سے ہو جا تی ہے مگر اس کو المیہ کہیں یا کوئی اور نام دے دیں ہماری اسمبلیوں کے اراکین مقا می حکومتو ں سے بُغض اور رقابت رکھتے ہیں کیونکہ ”پھنے خا نی“ میں بلدیا تی نما ئیندے شریک بننا چاہتے ہیں میٹنگ میں دو چار کر سیاں لے لیتے ہیں سپا سنا مہ کی باری آئے تو اپنی بات اس میں ڈالنا چاہتے ہیں وی آئی پی مہمان آئے تو استقبالی قطار میں رکن اسمبلی کے برابر آکر کھڑے ہو جا تے ہیں یہی وہ خرا بی ہے جس کو دور کرنے کے لئے جمہوری حکومت بلدیاتی انتخا بات نہیں کراتی اور ہمیں مار شل لاء کا انتظار کرنا پڑ تا ہے آج اگر کوئی مائی کا لعل پیدا ہو جائے اور عمران خان کی مینار پاکستان والی تقریر ان کو سنا ئے تو کل بلدیاتی انتخا بات کا اعلا ن ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔