ڈبلیو ایچ او کا سرٹیفیکیٹ…محمد شریف شکیب

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا پاکستان سے سیکھے کہ عالمی وباء سے کیسے نمٹنا ہے، پاکستان سمیت ان سات ممالک کی وباء کے خلاف تیاری اور ردعمل میں دنیا کیلئے سبق ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وباء کے خاتمے کے لئے پاکستان، تھائی لینڈ، نیوزی لینڈ، اٹلی، منگولیا، ماریشس اور یوراگوئے کی تقلیدکی جا سکتی ہے،عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ ہمیں آئندہ عالمی وباء پھوٹنے کی صورت میں کورونا وباء سے سبق سیکھنا ہو گا،یہ سبق پاکستان سمیت سات ممالک دنیا کو بہتر طور پرسکھا سکتے ہیں، انہوں نے مستقبل میں کسی ہنگامی وباء سے نمٹنے کے لئے دنیا کو تیار رہنے کا انتباہ بھی جاری کر دیا،ان کا کہنا تھا کہ کورونا آخری وباء نہیں، تاریخ بتاتی ہے وبائیں اور بیماریاں زندگی کی حقیقت ہیں،جس کے لئے عالمی برادری کو ہمیشہ چوکس رہنا ہوگا۔ڈاکٹر ٹیڈروس نے کہا کہ آج شعبہ صحت میں سرمایہ کاری اور اسے سماجی، اقتصادی، سیاسی استحکام کی بنیاد بنانا ناگزیر ہے،جن ممالک نے صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا انہیں کورونا کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ پاکستان میں اب تک کورونا کیسز کی مجموعی تعداد 3 لاکھ 371 اور اموات کی تعداد 6 ہزار 370 ہے۔جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں روزانہ کی بنیاد پر کورونا کے اسی، نوے ہزار مریض سامنے آتے ہیں اور روزانہ ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔وہاں کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 76ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ امریکا، بھارت، برازیل اور روس کے بعد دنیا بھر میں پیرو پانچویں نمبر پر پہنچ چکاہے جہاں کورونا مریضوں کی تعداد سات لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔اسپین میں مزید 10 ہزار، فرانس میں 9 ہزار اور انگلینڈ میں مزید 3 ہزار مریض سامنے آ گئے۔دنیا بھر میں 2 کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگ کوروناکے مرض میں مبتلاجبکہ 9 لاکھ 9 ہزار سے زائد افراد عالمی وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔جو جنگ عظیم کے بعد انسانی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔عالمی ادارہ صحت کی طرف سے تعریف و توصیف کو ہماری حکومت اپنی پالیسیوں کی کامیابی کا سرٹیفیکیٹ قرار دے سکتی ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے سربراہ نے ہماری حکمت عملی کو اقوام عالم کے لئے قابل تقلید قرار دیا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ انسداد کورونا مہم میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کوششیں بھی شامل رہی ہیں، ہمارے ہاں وقت پر اچھی بارشوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافے کو بھی حکومتیں اپنی کامیاب حکمت عملی قرار دیتی رہی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور ڈاکٹروں کی تنبیہ کے باوجود ہمارے عوام نے کورونا وائرس کو مہمان سمجھ کر اس کی جتنی آؤ بھگت کی۔ اس مہمان نوازی کی مثال بھی دنیا میں نہیں ملتی۔سماجی فاصلے رکھنے کی ہدایات کو ہم نے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا۔بازار اور ٹرانسپورٹ کھلنے کے بعد لوگ یوں گھروں سے نکل آئے جیسے انہیں عمر قید سے رہائی ملی ہو۔پاکستان میں کورونا وائرس کے وار زیادہ کارگر نہ ہونے کی بہت سی وجوہات بتائی جاتی ہیں کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ لوگوں نے مرض سے بچاؤ کے لئے اتنی زیادہ دعائیں کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس قوم پر ترس آگیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں گرمی زیادہ ہونے کی وجہ سے کورونا وائرس سست پڑگیا۔کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ ہمارے لوگ بڑے سخت جان واقع ہوئے ہیں وہ ملاوٹی خوراک استعمال کرنے کی وجہ سے پہلے ہی کئی اقسام کے وائرس اپنے جسم میں پالتے ہیں۔گھی کے نام پر ہمیں چربی کھلائی جاتی ہے۔ چائے کی شکل میں جو مائع چیز ہم پی رہے ہیں اس میں لکڑے کے برادے اور کالے چنے کے چھلکے ہوتے ہیں مصالحوں سے ملتی جلتی جو چیز ہم استعمال کرتے ہیں وہ دراصل پسی ہوئی اینٹیں ہوتی ہیں جو سفید مائع دودھ کے نام پر استعمال کرتے ہیں اس میں 98فیصد پانی، ایک فیصد کیمیکل اور صرف ایک فیصد دودھ ہوتا ہے۔ ہمارے بازاروں میں پانی کا انجکشن لگا گوشت فروخت ہوتا ہے۔ ہماری خوراک کے ہر جزو میں کیمیکل ہوتا ہے۔ اتنا آلودہ خوراک استعمال کرکے ہم خود سراپا وائرس بن چکے ہیں اس وجہ سے کورونا سمیت کوئی دوسرا وائرس ہم پر اثر نہیں کرتا۔اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ ہم حفاظتی اقدامات کو پس پشت ڈالنے کا کسی کو مشورہ دے رہے ہیں۔اپنے ملک کی نیک نامی کی خاطر ہمیں کورونا سے بچاؤ کے حفاظتی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔اور کچھ نہیں تو ہمارے دشمنوں کے دل کو تو ٹھیس پہنچے گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔