مارکیٹ کنٹرول کے نظام کا فقدان…محمد شریف شکیب

خیبرپختونخوا میں ملاوٹ‘ذخیرہ اندوزی‘ مہنگائی روکنے‘ سرکاری نرخنامے پرعملدرآمد اور اشیائے خوردونوش کی مارکیٹ میں بہ آسانی دستیابی یقینی بنانے کیلئے لگ بھگ 7محکمے سرگرم عمل ہیں صوبائی دارالحکومت پشاورمیں محکمہ خوراک‘حلال فوڈ اتھارٹی، لائیو سٹاک، ضلعی انتظامیہ، ٹی ایم ایزاور کنزیومر کورٹ عوام کو معیاری اشیائے خوردو نوش کی مناسب قیمت پر فراہمی،گرانفروشی، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے خاتمے کے ذمہ دار گردانے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پولیس کو بھی قیمتوں اور معیار پر نظر رکھنے کے اختیارات ملنے سے مانیٹرنگ کرنے والے محکموں کی تعداد سات ہوگئی ہے‘ایک سرکاری افسر کے مطابق لگ بھگ آٹھ ہزار600اہلکار دکانوں، ہوٹلوں، پرچون فروشوں اور پھل وسبزی منڈیوں میں اشیاء کی قیمتوں پر نظر رکھنے، تجاوزات اور غیر قانونی تھڑوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اس کے باوجود مہنگائی کا جن قابو میں نہیں آرہا۔سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکاروں کے ساتھ وزراء کے چھاپے اور معائنے بھی شامل کرلئے جائیں تو محکموں کی تعداد مزید بڑھ جاتی ہے،بازاروں میں ہر چیز کی قیمت میں روزانہ کی بنیاد اضافہ ہورہا ہے۔ مرغی کا گوشت 105روپے سے اب 210روپے کلو تک پہنچ گیا ہے بڑا گوشت 300روپے کلو سے 500روپے کلو ہوگیا۔ چھوٹا گوشت 600روپے سے 1200روپے کلو فروخت ہورہا ہے آلو، شلغم، بھنڈی، پیاز، توری، کدو اور دیگر سبزیاں بھی سو روپے کلو فروخت ہورہی ہیں لہسن چارسے چھ سو روپے اور ادرک چھ سے آٹھ سو روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ گھی، چینی، آئل اور دالوں کے داموں میں بھی ہر ہفتے اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ قیمتیں بڑھنے کے ساتھ معیار بھی گرتا جارہا ہے بازار میں اصلی چیز چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔گلی کوچوں میں قائم غیر قانونی فیکٹریوں میں تیار کی جانے والی نقلی اور غیر معیاری اشیاء کی بہتات ہے۔ پشاور کے بزرگ شہری تیس چالیس سال قبل تعینات شہر کے اکلوتے مجسٹریٹ کا ذکر آج بھی بہت احترام سے کرتے ہیں جو راہ چلتے لمبی زلفوں والے نوجوانوں کی موقع پر بال تراش لیتے تھے اور ملاوٹ کرنے والے کو ایسی سزا دیتے کہ کسی کو آئندہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہوتی‘ کئی کتابوں میں بھی ان کا حوالہ موجود ہے‘ لیکن آج اتنے سارے محکموں، سینکڑوں اہلکاروں اور درجنوں قوانین کی موجودگی میں بھی ملاوٹ مافیا آزاد ہے‘ کوئی دودھ میں پانی ملاکر بیچتا ہے تو کوئی کمیکل ملاکر عوام کو لوٹتا ہے۔ مارکیٹ میں دودھ کی مختلف قسمیں موجود ہیں شیرفروش خود گاہک سے پوچھتا ہے کہ 80روپے لیٹر والا دودھ چاہئے، 100روپے یا 120روپے والا چاہئے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ 80والا دودھ پانی ملا اور پتلا ہوتا ہے۔100والا دودھ کمیکل ملا ہوتا ہے اور120والا خالص ہے۔ کوئی اس دکاندار سے پوچھنے والا نہیں کہ دودھ خواہ بکری کا ہو، گائے یا بھینس کا دودھ ہو۔اس کی ایک ہی قسم ہوتی ہے۔ یہ تین چاراقسام کے دودھ کہاں سے آگئے ہر دوسرے دکاندار کا نرخنامہ پہلے والے سے الگ ہے‘چینی ایک دکان میں 100روپے فی کلو تو دوسرے میں 110روپے فی کلو بکتی ہے، ٹماٹر کوئی 100روپے تو کوئی 120روپے میں بیچ رہا ہے۔سرکار کی طرف سے اشیائے خوردونوش کے جو نرخنامہ جاری کیا جاتا ہے وہ پندرہ بیس سال پرانا ہے۔اگر کسی صارف کے ہاتھ وہ نرخنامہ لگ بھی جائے تو دکاندار کہتا ہے کہ نرخنامہ مقرر کرنے والے سرکار سے کہہ دیں کہ اس ریٹ پر چیزیں خود لاکر لوگوں کو فراہم کرے۔ تاجروں کو شکایت ہے کہ ایک محکمہ کے اہلکار چھاپہ مار کر اپنی مٹھی گرم کرکے چلے جاتے ہیں تو دوسرا محکمہ آتا ہے، اور اپنا حصہ وصول کرتا ہے اور دکاندار کو من مانے ریٹ مقرر کرنے کی کھلی چھٹی مل جاتی ہے اور وہ سرکاری اہلکاروں کو دی گئی رشوت بھی منافع سمیت صارفین سے وصول کرتا ہے۔ ہر نانبائی روٹی کا اپنا وزن اور قیمت مقرر کرتا ہے۔کیا ہی بہتر ہو کہ ان سات آٹھ سرکاری محکموں کو مارکیٹ سے دور رکھا جائے اور مجسٹریسی نظام کوبحال کیاجائے کیونکہ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ ایک ہی مجسٹریٹ جو نتائج دیتا تھا وہ آٹھ محکموں کے ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد اہلکار مل کر بھی نہیں دے سکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔