ظاہر شاہ کا اپر چترال سے تبادلہ سمجھ سے بالاتر امر..موسی ولی خان

اگر کسی کلیدی عہدے پر براجمان سرکاری اہکارمغرور اور خود سر نہ ہو تو پھر کیا ہو۔ سرکاری اہلکاروں کا خاصہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی ساری توانائی عوام کو یہ جتانے میں صرف کرتے ہیں کہ عوام کے ساتھ ان کا رشتہ آقا اور غلام کا ہے۔ نہیں تو کسی سرکاری دفتر میں جاکر خود ہی ملاحظہ فرمائیے۔ لیکن کچھ سر پھہر بھی ہوتے ہیں، جو اپنے کام کے ساتھ وفادار ہوتے، ساتھ عوام دوستی کا مرض بھی ان کو لاحق ہوتا ہے۔ ایسے لوگ عزت کے علاوہ کچھ اور نہیں کماسکتے۔ اور بسا اوقات وہ اپنی فرض شناسی اور عوام دوستی کا خمیازہ بھی بھگت لیتے ہیں، لیکن پھر بھی اف تک نہیں کرتے۔
ہمارے اور اپ سب کے ہردلعزیز دوست اور بھائی ظاہر بھی اس نسل کی ترجمانی کرتے ہیں، جس نے اپنی گردن میں لگے سرکاری سریے کو کبھی اپنے اور عوام کے بیچ حائل نہیں ہونے دیا۔ ڈی سی آفس چترال میں سالوں تک خدمات انجام دینے کے بعد بھی ان کے حصے میں کبھی کوئ شکایت نہیں ائی۔ ڈی سی آفس انے والا چاہے کوئی بھی ہو وہ ظاہر شاہ کی چائے سے اور مسکراہٹ سے محروم نہیں رہا۔ ظاہر شاہ جیسے اہکار ڈپٹی کمشنر کی آنکھ اور کان ہوتے ہیں اور ضلعی انتظامیہ کے روز مرہ کے کارگزاری میں اس کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ لیکن ظاہر شاہ نے کبھی بھی اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ ہر انے والے ڈپٹی کمشنر کو چترال کوحقیقت پر مبنی نقشہ ہی دکھایا اور انتظامی امور کو سرانجام دینے میں ان کی بھر پور مدد کی۔
اپرچترال ضلع بنا توظاہر شاہ کی خدمات اس نوزائیدہ ضلع کے حوالے کی گئیں۔ بلاشبہ انتظامی ڈھانچہ کھڑا کرنا ایک مشکل اور کھٹن کام ہوتا ہے۔ ظاہر شاہ نے کم مادی اور انسانی وسائل کے ساتھ جس خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دئے اس کے سب متعرف ہیں۔ لیکن اس مشکل وقت میں ظاہر شاہ کا اپر چترال سے تبادلہ سمجھ سے بالاتر امر ہے۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ دو چار اور تجربہ کار افسران اور اہلکار اپر چترال میں تعینات کئے جاتے تاکہ ضلع کے انتظامی امور کو بہتر اور پیشہ ورانہ انداز میں چلایا جاسکتا۔ لیکن افسوس یہ کہ اپر چترال کو ظاہر شاہ جیسے فرض شناس اور محنتی افسر سے محروم کیا گیا۔ کیاہی اچھا ہوا کہ اپر چترال کے بہتر مفاد میں ظاہر شاہ کی خدمات واپس ضلع اپر چترال کے حوالے کی جائیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔