محبت کی دیوی ….تحریر: اقبال حیات اف برغذی

ایک گھر میں بچی کی ولادت پر مبارکباد دینے کے لئے جانے کا اتفاق ہوا۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ماحول میں سوگ کی کیفیت کا احساس ہوا۔ خاندان کی دادی اماں کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ اور زبان بیٹی کی پیدائش پر شکوے شکایت اور نفرت امیز الفاظ کے ترجمان کا کردار ادا کررہا تھا۔ اور گھر کے دیگر افراد منہ بنائے غم کا اظہار کررہے تھے۔ بیٹی کی پیدائش کے لئے میری زبان سے نکلنے والے مبارکبادی کے الفاظ بھی حقارت کا شکار ہوئے ۔اور شیرینی کے تقاضے پربیٹی کے لئے اس لفظ کے استعمال کو بھی اہانت اور توہین قراردیا گیا۔

ایک مسلمان خاندان میں پائے جانے والے اس قسم کے احساسات اور تصورات مذہب کے ساتھ وابستگی کی نوعیت کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہیں۔ بدقسمتی سے قبل ازاسلام کے لوگوں کے مزاج کی یہ کیفیت ہماری معاشرتی زندگی میں عمومی طور پر پائی جاتی ہے۔ “مرضی مولیٰ از ہمہ مولیٰ ” کے اسلامی تصور کے برعکس اپنی چاہت اور خواہش کی برآوری کو مقدم سمجھنے کا عمل بڑھتا جارہا ہے۔

“جسے چاہوں بیٹی دوں،جسے چاہوں بیٹا دوں،جسے چاہوں بیٹی اور بیٹا دونوں سے نوازوں اور جسے چاہوں بانجھ کروں “

جیسے قرآنی آیات پر مبنی رب کائنات کے اختیارات پر اٹل دعویداری کے بارے میں ہرزہ سرائی اور رائے زنی کی جرات کرکے مسلمان ہونے کی دعویداری آنہونی معلوم ہوتی ہے۔ سرکار دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بیٹی کو رحمت خداوندی او ر اس کی پرورش  کے حقوق کی ادائیگی کو قیامت کے دن دو انگلیوں کی قربت کے مماثل اپنے ساتھ ہم نشینی کے اعزاز سے نوازے جانے کے باوجود اس کی پیدائش پر مغموم ہونا بد بختی کی علامت ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام رب کائنات کی خوشنودی کی علامات کے بارے میں سوال کرنے پر اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ بوقت ضرورت بارش کا برسنا، کسی کو بیٹی سے نوازنا اور کسی کے گھر میں مہمان لانا میری رضا کی نشانیاں ہیں۔

یوں بیٹی کی صورت میں اللہ کی عظیم نعمت سے مالامال ہونےپر گریٹہ وزاری کو اگر بدبختی سے تعبیر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ خصوصا آج کی ہماری معاشرتی زندگی میں رشتے ناطوں کی خزان رسیدہ دنیا میں صرف بیٹی کی صورت میں تعلق صدا بہاری کے رنگ میں موجود ہے۔ جس کے احساس سے محرومی نمک حرامی کے مترادف ہے۔ بیٹی ہی وہ ہستی ہے جس کا وجود بے غرض،بے مطلب خلوص کی مہک سے معطر اور جس کا دل پیار،محبت اور خیر خواہی کے جذبات سے ہمہ وقت لبریز رہتا ہے۔ والدین کے چہروں پر  مرکوز ان کی انکھوں سے غمخواری کے چراغ نکلنے کا احساس ہوتا ہے ۔ اور ان کے دکھ درد پر خود کو قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ گھر کی زیب وزینت کی خواہش ہر وقت اس کے دل میں مچلتی رہتی ہے۔ غلیظ اور نفرت امیز الفاظ سے اس کی زبان نااشنا ہوتی ہے ۔

مختصر یہ کہ اس مسلمہ حقیقت سے انکاری کوئی عقل وخرد سے عاری بندہ خداہی کرسکتا ہے کہ شفقت ومحبت کی اس دیوی سے ہی کائنات کارنگ مزین ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔