دھڑکنوں کی زبان۔۔۔۔۔”ہماری قسمت کا جعرافیہ”۔۔۔محمد جاوید حیات

ریاستی حکمران شاہ امان الملک کے دربار میں اپر چترال کے کچھ عمایدیں حاضر ہوے ۔سپاس گزار ہوے ۔۔اگر جان کی امان پایں تو ہمارے باربرداری کے جانوروں (گدھوں) کے لیے راستہ نہیں ہے ریاستی محصول (ٹیکس) کے سامان لانے میں دشواری ہوتی ہے ۔۔حکمران کے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئ ۔رعایا کی سادہ لوحی پہ ترس آیا اور شاید ان کے گدھاپن پہ غصہ آیا اور کہا ۔۔تم گدھوں کی بات کرتے ہو تمہارے لیے راستہ کدھر ہے ۔۔کس کا انتظار کر رہے ہو ۔راستہ بناو ۔۔۔صورت حال وہی ہے البتہ فرق یوں ہے کہ ہمارے حکمران ،انتظامیہ اور سیاسی مستنڈے منہ پر ہمیں کہتے نہیں ۔۔کہ جاو اپنے لیے راستہ بناو ۔ہم اگر کسی میدانی علاقے میں پیدا ہوےہوتے تو چلتے چلتے پگڈنڈیاں خود بنتیں ۔۔یہ سخت جان پہاڑی علاقہ ہے ان پتھروں پر ہزاروں سال چلتے رہیں یہ گستے نہیں ہیں۔ ٹھس سے مس نہیں ہوتے ان پہ کیا راستہ بنے ۔۔کدال پھاوڑے ہیں مگر ہمارے بازووں میں نہ مجنون جیسا زور ہے نہ لینن کی فوج جیسی طاقت ہے کہ پہاڑ کاٹیں ۔ہم کوہکن قوم نہیں ۔ہم گدھوں کے لیے راستہ بنانے کی دھائ دینے والی قوم ہیں ۔خود پہاڑوں سے گر گر کر زیر و زبر ہو جاتے ہیں لیکن کسی کی توجہ اپنی طرف مبزول نہیں کرا سکتے ۔۔۔ستر کی دھائ میں جب بٹھو سینیر کا دور آیا تو کہنے والے کہتے ہیں کہ چترال میں پگڈنڈیوں کا رواج ہوا ۔۔لاواری کا وہ زیکزیک راستہ ،لوٹ کوہ کی پگڈنڈی ،آپر چترال کے لیے کچا راستہ بن گیا ان خونی راستوں پر بےچارے عوام کا سفر سقر جاری ہوا ۔اور اب تک جاری ہے ۔۔لواری ٹنل کو بھٹو سینیر نے شروع کیا تھا مگر مرد حق نے پہلی فرست میں اس کو بند کیا ۔کئ سالوں بعد پھر بنا لیکن جیسے بننا تھا ایسا نہ بنا ۔۔۔شاید ہماری قسمت کا جعرافیہ اڑے آگیا ۔۔لوٹ کوہ کا بیٹا وزیر تک بنا چاہیے تھا اس علاقے کے لیے اچھا خاصا روڈ بنتا ۔۔نہ بنا ۔اپر چترال کے لیے چاینیز کمپنی نے نواز شریف کے دور میں بونی تا چترال کارپٹ روڈ بنا یا تھا وہ آخری پچکیاں لے رہا ہے ۔۔شندور چترال روڈ کے لیے ہمیں کئ خواب دیکھاے گے پھر خواب خواب ہی رہے ۔۔شہزادہ افتخار الدیں محنتی لیڈر تھے انھوں نے زاتی جد جہد کے بعد بونی ترکھو روڈ کی منظوری لے کے آے ۔ٹھیکداروں نے پنتالیس کروڑ خرچ کیے لیکن پگڈنڈی ویسی ہی رہی ۔ان کو انعام سے نوازا گیا اشیر بات ہوئ ۔۔چار سال پہلے میں خود شہزادہ صاحب کے جلسے میں موجود تھا انجنیر مقبول صاحب نے فرمایا کہ اس روڈ میں پانچ پل ہیں ہم اس دسمبر تک تین بناینگے ۔۔تالیاں ہوئ یہ اگست کا مہینہ تھا ۔۔ پانچ مہینوں کی جگہ چار سال بیت گیے۔ پلوں کا نام و نشان نہیں ۔اب پورا تورکھو اور مدک زیزدی سے لیکر تریچ بالا تک کا راستہ استارو میں پل ٹوٹنے سے متاثر ہے۔ یہ غالبا اگست کا مہینہ تھا پل ٹوٹا ۔۔اگر ہم زندہ قوم ہوتے تو اب تک کئ پل بن چکے ہوتے ۔۔کیونکہ یہ زندگی اور موت کا مسلہ ہے ۔۔ایک پگڈنڈی بنائ گئ جو بارش برف وغیرہ میں استعمال کے قابل نہیں ہے ۔لیکن عوام اب گدھوں کے لیے راستہ بنانے کی دھائ لے کے کہاں جایں ۔۔ابھی انتظامیہ ادھر گیا ۔۔اے سی صاحب کو بریفنگ دی گئ کہ پل پر کام ہو رہا ہے ۔۔انتظامیہ کے آفیسروں کا ادھر کا سفر نہ ہوگا ۔۔ان کا اپنے پیاروں کا اس راستے پہ سفر نہ ہوگا ۔۔ایم پی ایز کے دولت کدے بھی اس راستے پہ نہیں پڑتے۔ ایم این اے صاحب بھی کبھی ادھر کا رخ نہ کرے گا کیونکہ لور چترال سے اس سردی میں اپر چترال کون جاے ۔۔اب عوام کہان جایں کس صاحب سے گزارش کرنے جایں ۔ بس اپنے جعرافیے کو رویں ۔۔اپنی قسمت پہ افسوس کریں ۔۔اللہ نہ کرے کوئ گاڑی گرے گی ۔۔لوگوں کی جانیں جاینگی ۔۔مال ضایع ہوگا ۔۔حکومت قیمتی جانوں کے ضیاغ پہ افسوس کرے گی ۔اگر ہماری اپیل میں طاقت ہو تو وزیر زادہ صاحب سے گزارش کریں کہ آپ فوری سٹیل پل کا بندوبست کرایں ۔عوام کا دل جیتیں ورنہ ہم صحرا میں صدا کیوں دیں ۔۔ہماری آواز کو ن سنے ۔۔ایڈوکیٹ وقاص نے روڈ اور ڈیمانڈ کی تحریک لے کے آگے بڑ ھ رہے ہیں کیاخیال ہے اگر ہم وہاں جا کر بیٹھ جایں اور دوسری زبان میں دھرنا دیں ۔۔جو ایک کلچر سا ہے کیا اس کا کوئ نتیجہ نکلے گا ۔۔یا پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل ولی بن کرجایں ۔۔اور اس جگہ لکڑی کا پل ڈالیں اور رسم کوہکنی ادا کریں ۔۔لیکن غالب نے اس پہ بھی معترض رہا تھا
تیشہ بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد ۔۔۔
بس ہم اپنی قسمت کے جعرافیے پہ رویں کہ یہاں پہ ہماری پیدایش کیوں ہوئ ۔اور اپنی بے موت مرنے کا انتظار کریں ۔۔
موت کا ایک دن معین ہے
نید کیون رات بھر نہیں آتی

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔