نوائے سُرود                     نرالا فیصلہ                        شہزادی کوثر    

ملک میں سراٹھانے والے مسائل میں سے ایک مسلہ بلکہ جرم خواتین کو ہراسان کرنے کا ہے روز کسی خاتون یا بچی سے زیادتی کا دلخراش سانحہ رونما ہو رہا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ گیارہ بچیاں یا خواتین ہوس کا نشانہ بن رہی ہیں ۔ درندگی اور وحشی روپ کا مظاہرہ معاشرے میں فیشن کی طرح عام ہو رہا ہے بڑے سے بڑا تعلیمی ادارہ ہو یا کوئی سرکاری یا نجی دفتر،مدرسہ ہو یا گھر کے قرب و جوار میں کھیلنے کا میدان ،مرد کی ہوس ذدہ نظریں ہر طرف صنف ِ مخالف کی تاک میں رہتی ہیں کہ کہیں سے موقع ملے اور وہ مردار خور گدھ کی طرح عورت کے وجود کو نوچے۔ عورت کی اتنی توہین اور تذلیل اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔ وہ نہ درسگاہ میں اپنی عفت کی حفاظت کر سکتی ہے اور نہ کام کی جگہ پر خود کو بھیڑیوں سے بچا سکتی ہے۔ بڑھتے ہوئے ان واقعات کی وجوہات دین ومذہب سے دوری ،اسلامی تعلیمات سے نا واقفیت،احکامِ الہی سے انحرافِ، تربیت کا فقدان،صحبتِ بد میں گرفتاری،اخلاق باختہ ویب سائٹس اور فحاشی میں اضافہ ہے۔ جو کسی ایک طبقہ کا مسلہ نہیں اور نہ ہی اس فعل قبیح میں صرف نوجوان ہی گرفتار نہیں بلکہ ہر عمر اور ہر علاقے  کے مردوں میں یہ شیطانی صفت فعال ہو گئی ہے جس کا خمیازہ عورت جیسی مجبور مخلوق کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ان شیطانوں کو نہ تو معاشرے کا ڈر ہے اور نہ ہی کورٹ کچہری کا خوف ، یہاں تک کہ خالق کے حضور پیش ہونے کا بھی انہیں یقین نہیں ورنہ اتنے بڑے گناہ کے مرتکب نہ ہوتے ۔ہر روز اس طرح کے دل دوز واقعات سے انسانیت کی روح لرز جاتی ہے۔ بچوں کو سکول اور مدرسے بھیجتے ہوے بھی ڈر لگتا ہے۔ والدین اپنے ننھے فرشتوں کو باہر کھیلنے نہیں دیتےکہ خدانخواستہ کچھ غلط نہ ہو جائے۔ جو کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہےاس کے بارے میں سب جانتے ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کررہا ۔صرف احتجاج کرنے یا ایسے واقعات کی مذمت کرنے سے کیا ہو گا ؟ جلسے جلوسوں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر تقاریر کرنے یا ٹاک شوز میں ان درندوں کے کالے کرتوت بار بار نشر کر کے ہمارے دماغوں کو زہر ٓالود کرنے سے کیا یہ لوگ ایسا کرنا بند کر دیں گے؟ یا اپنے گناہوں سے توبہ تائب ہو کر کسی پیر فقیر کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ؟ انہیں ہماری تقاریر اور مضمون نگاری سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ جب تک کوئی عملی سزا نہ ہو گی معصوموں اور مظلوموں پر ہونے والے ظلم کا کفارہ کبھی بھی ادا نہیں ہو سکے گا۔حکومتی سطح پر باتیں بڑی بڑی کی جاتی ہیں ،ایوانون میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں ،بل پاس ہوتے ہیں،قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کی کار کردگی صفر سے ضرب دینے کے قابل ہے۔ زینب اور اس جیسی بچییوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس بارے میں پوری دنیا جانتی ہے ،زینب الٹ بل پاس ہواقوانین بنائے لیکن ابھی تک عمل ندارد۔۔۔۔۔ اس منحوس شخص کو گرفتار کرنے کی خبریں زور و شور سے چلائی گئیں لیکن سزا کے بارے میں کسی کو علم نہیں کہ اسے ملی بھی یا نہیں ؟  اگر اس بھیڑیے کو چوراہے پر لٹکایا جاتا اور اس کی لاش چیل کووں کی خوراک بننے چھوڑ دیا جاتا تو ٓاج یہ واقعات مزید رونما نہ ہوتے۔ ایسا کرتے ہوئے ہزار بار سوچتے ،لیکن ہمارے قوانین ردی کی ٹوکری اور بوسیدہ فائل کی زینت بننے کے لیے بنائے جاتے ہیں اس پر عمل درٓامد کا موقع کبھی نہیں ٓاتا۔یہی وجہ ہے کہ حوا کی بیٹیاںاپنے وجود سے متنفر ہو رہی ہیں۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ افسردہ اور ماں کانپ جاتی ہے موٹر وے والے واقعے کے کردار نے پولیس کو ہفتوں تک تگنی کا ناچ نچایااور ہماری سست الوجود پولیس اپنی روایتی کار کردگی کا مظاہرہ کرتی ہوئی ہر بار ناکام لوٹتی رہی بالاخر اسے پکڑا گیا اس کے بعد سزا ملی یا مک مکا ہو گیا واللہ اعلم ۔۔ بہت سے واقعات میں با اثر افراد کے ملوث ہونے کی خبریں بھی سامنے ٓاتی رہتی ہیں ۔سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود ظالم سرِعام دندناتے پھرتے ہیں انہیں گرفتارکر کے قرار واقعی سزا دینے کی ہمت کسی کو نہیں ہوتی ۔ایسے میں ظالم کا حوصلہ مزید بڑھتا ہے دوسری طرف مظلوم بچی اور اس کا خاندان اپنی بے کسی اور لاچاری میں کسی سے نظریں ملانے کےبھی  قابل  نہیں رہتا، اب تو حد ہی ہو گئی حکومت کی طرف سے ان ظالموں کے لیے جو سزا تجویز کی گئی ہے اسے سن کر سر پیٹنے کو دل چاہتا ہے  ۔کیا اس سزا سے مظلوموں کے غموں کا کفارہ  کبھی ادا ہو سکے گا؟  جب تک انہیں پھانسی کے تختے پر نہ لٹکایا جائے والدین کے دل میں لگی ٓاگ ٹھنٹی ہو ہی نہیں سکتی  ۔حکومت کا یہ نرالا فیصلہ مظلوموں کے زخموں پر مرچوں کا مرہم لگانے کے مترادف ہے۔وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کے خلاف صرف اللہ کی عدالت میں فریاد کر سکتے ہیں کیوں کہ دنیا والے ان کے دکھوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔