پس وپیش۔۔۔ جامعہ چترال : ہماری بساط اور سوچ۔۔۔ اے۔ایم۔خان

چھ دسمبر کو  ‘جامعہ چترال کا معمہ ‘ کے عنواں پر  اس موقر اخبار کیلئے ایک کالم لکھا  جس میں جامعہ چترال کے بننے اور سے پہلے اعلی تعلیم کے انتظامات کب، کہاں اورکیسے جاری رہے،   اور وہ سفر  اب کہاں پہنچ چُکا ہے، کو قلمبند کرنے کو شش کی تھی۔ اس کالم کے پہلے حصے میں ، جو رائے میرے اُس کالم پہ آئی، اور دوسرے حصے میں وہ آراء اور سوالات  چاہے مذاق، تنقید، اور کنائے کی صورت میں میرے سامنے آئے ہیں، اُن پر بھی میری رائے موجود ہے۔

 ایک قاری میرے کالم  کے نیچے یہ کمنٹ دی ، گوکہ کئی لوگوں پر اس رائے کا اطلاق ہوتاہے،  کہ  آپ اسے [جامعہ چترال کو] ‘ایک بڑا مسلہ’ کیوں بناتے ہیں اور اسے ایک ‘بیابان’ میں کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟پہلی بات یہ ہے کہ  اگر چترال میں اعلی تعلیم کیلئے ایک ادارے کے قیام کے حوالے سے بات ہو جائے تو  یہ ایک بحث ہے میرے خیال میں ‘مسلہ’ نہیں۔ فرض کریں کہ ہم اسے بڑا مسلہ بنا رہے ہیں، اُس کے نزدیک یہ ایک بڑا مسلہ ہی نہیں ہے؟  اپنے کالم میں یونیورسٹی کو میں اسپراغ لشٹ یا ققلشٹ میں بنانے یا نہ بنانے کے حوالے سے بات ہی نہیں کی تھی تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ قاری میرا کالم مکمل نہیں پڑھا تھا۔

چترال میں ایک ‘مقامی’ سوچ یہ ہے کہ کوئی بھی موضوع ، چیز، مسلہ، خیال اور سوچ پر بات یا بحث ہوتی ہے تو یہ مسلہ بن جاتی ہے اور اسکا ایک ‘مقامی’ حل یہ ہے کہ اس پر بات ہی نہ ہو۔ اور بات بھی ہو جائے وہ چند لوگ بات کریں اور فیصلہ لے لیں۔ یہ رائے ، سوچ یا فطرت  غیر جمہوری ہے ، آزاد سوچ ، آزادی، انسانی فطرت،  استدلال، اور دلائل کی بنیاد پر فیصلہ لینے کے خلاف ہے،  اور غیر عوامی ہے۔

 گوکہ یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم چترال میں شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی اور عبدالوالی خان یونیورسٹی کے کیمپس چترال میں شروع ہونے سے پہلے مختلف ادارے شروع کرچُکےتھے۔ جس میں خصوصاً ایجوکیشن میں ایم۔ایڈ اور بی ۔ایڈ کی ڈگری افر کرنا شامل ہیں۔ ہاں ہم اُن اداروں میں معیار کی بات پر بحث کرسکتے ہیں لیکن اعلی تعلیم چترال میں شروع کرنے کا کریڈیٹ بہت اداروں کو چلا جاتا ہےجسمیں یونیورسٹی آف چترال گزشتہ چند سالوں سے  شامل  ہوچُکا ہے۔

ایک رائے میرے سامنے  یہ بھی سامنے آئی جسمیں چترال یونیورسٹی کی وجود کو نہ ہونے سے، بعض لوگ،  تعبیر کرتے ہیں  یہ ایک روایتی سوچ پر مبنی خیال ہے ۔اور اُن کے خیال میں اگر ادارے کا اپنا زمیں ہو اور وہ اسکا ایک عمارت ہو تب یونیورسٹی ہے یا ادارہ ہے۔ موجودہ دور میں ایسے ادارے ہیں جسے ہم عمارت اور زمیں سے تعین نہیں کرسکتے گوکہ اُن کا ایک دفتر ایک خاص ملک میں ہو یا نہ بھی ہو لیکں وہ پورے دُنیا میں  اپیریٹ کرتا ہے۔ مائیکرو سافٹ کمپنی، یوٹیوب، گوگل، فیس بک کی مثال سے زیادہ موزوں  یہ موقر اخبار ہے ۔

چترال میں  یونیورسٹی بنانےکےمقامات کے حوالے سے تین آراء پر فیس بک میں اکثر بحث رہی جس میں سین لشٹ، اسپراغ لشٹ اور ققلشٹ شامل ہیں۔ ان تینون مقامات پر مسائل یعنی  زمیں ،پانی، بجلی، روڈ اور دوسرے سہولیات، اور سیدآباد کے حوالے سے ‘انفیز یبل’ ہونے پر بھی رپورٹ آئی ہے۔  اب وقت اتنی بدل چُکی ہے کہ اگر ہم ایک وقت میں ‘پانی کے بغیر پن چکی’ کا تصور نہیں کرسکتے تھے اب ہمارے پاس انرجی کے ایسے ذرائع اور وسائل موجود ہیں کہ ہم چکی کا مشین  پانی کے بغیر نہایت احسن طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ تو جو مسائل جہاں بھی ہیں دور جدید میں اُن کو حل کرنے کے بہترین ذرائع بھی موجود ہیں۔  

اور یہ رائے،  کہ چترال میں یونیورسٹی کو ناکام بنانے کیلئے ایک ‘گروہ’ ایک سیاسی جماعت کی مخالفت میں ‘یونیورسٹی آف چترال’   کو متنازغہ اور ہونے نہیں دیا جارہا ہے، کے اندر ہی اس رائے کا جواب موجود ہے۔ کہ چترال میں اب تک کوئی ایک گروہ، جماعت اور تحریک سامنے نہیں آئی ہے جو چترال میں یونیورسٹی بننے کی مخالفت کررہا ہے۔ اور چترال میں تعلیم یافتہ لوگ، یہ اُنکا جمہوری اور عوامی حق ہے، اپنا رائے دے رہے ہیں کہ یہ ادارہ کہاں بنایا جائے۔ اگر یہ الزام سیاست دانوں پر ہے تو  یونیورسٹی کی ‘مخالفت کی سیاست’ یا تو وہ ایک گھر یا بمشکل ایک قصبے میں محیط ہو سکتی ہے اور یہ سیاست دان یہ پہلے ہی طے کرچُکی ہوگی کہ وہ لوکل گورنمنٹ میں شاید  کونسلر کیلئے سیاست  میں حصہ لے یا نہ لے۔

ہمارے معاشرے میں ایک غلط فہمی ہے ، خصوصاً تعلیمی ادارون کے حوالے سے ،  جوکہ نہیں ہونا چاہیے وہ یہ کہ آبادی کے قریب ادارے بن جائیں تو وہ غیر مناسب ہیں۔ بے شک جب ادارے آبادی کے قریب بنتے ہیں وہاں لوگوں کو مسائل ہوتےہیں لیکں اس سے زیادہ فوائد اُنکو باہم میسرہوتے ہیں۔ قریب تعلیمی ادارہ ہونے کی وجہ سے اخراجات کم اور وقت کی بچت کے علاوہ، سب سے بڑا فائدہ وہاں لوگوں کی نشست وبرخاست تعلیم یافتہ لوگوں سے ہوتی ہے اور وہاں کے بچے تعلیم کو ہر چیز پر فوقیت دینا شروع کردیتے ہیں۔  اور ادارے ، خصوصاً تعلیمی ادارے، معاشرے سے دور کوئی سسٹم نہیں ہوتے اور تعلیمی ادارے  معاشرے کے حصے ہوتے ہیں۔ ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی جہاں کہیں بنا دی جائے وہاں مقامی لوگوں کیلئے فائدے سے زیادہ نقصان تو نہیں ہوسکتا شاید ادارے کیلئے تعلیمی اور علمی ماحول بنانے میں  وہ جگہ تنگ اور موزون نہ ہو۔

یونیورسٹی آف چترال بن کر تقریباً ڈھائی سال گزر چُکے ہیں۔ یونیورسٹی کیلئے آبادی سے زیادہ لوکیشن اور محفوظ جگہ معانی رکھتا ہ کیونکہ یہ ایک دور  اور وقت کیلئے نہیں بنتے بلکہ مستقل ہوتے ہیں۔اور یونیورسٹی میں طلباءو طالبات کو ہم قرب وجوار کے لوگوں تک محدود بھی نہیں کرسکتے جسمیں بیرون ملک سے لوگ بھی آجاتے ہیں۔ اور دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح موجودہ دور میں  یونیورسٹی کیلئے  طلباء نہ ہونے کا مفروضہ اب پرُانی ہوچُکی ہے۔  یونیورسٹی کے حوالے سے چترال کے لوگوں کا اپنی رائے  ، جوکہ اُنکا جمہوری حق ہے،  دینے سے یونیورسٹی متنازغہ ہونے کا مفروضہ بھی غلط ہے۔ یونیورسٹی کے حوالے سے مناسب عوامی آراء ایک رائے عامہ بنانے  میں مدد دیتا ہے جوکہ حکومت کیلئے ایک ان پُٹ اور فیڈبیک کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی بنیاد سسٹم تھیوری سے اخذ کی جاسکتی ہے، جوکہ حکومت  کیلئے ناگزیر خام مال ہے وہ اس کی بنیاد پر فیصلہ لیتا ہے۔

 یونیورسٹی آف چترال کا جو انتظام، جوکہ اب سین لشٹ میں  چل رہی ہے،  جس میں کئی ایک مسائل ہیں اس میں کوئی شک نہیں کا نہ صرف طلباء و طالبات  شکار ہیں  بلکہ اساتذہ کئ سالوں سے بے یقینی کی کیفیت سے اپنی زندگی گزارنے کے ساتھ اس انتظام کو چلاتے آرہے ہیں، اور یونیورسٹی منیجمنٹ بھی گوناگوں مسائل کا سامنا کررہا ہے۔ اور یہ سارے مسائل اور چیلینجز  ہر ادارے اور انتظام کے ساتھ آتے اور چلتے ہیں۔ اور جہاں کہیں بھی یہ ادارہ بنا دی جائے وقت کے مسائل اور چیلنجز آتے رہتے ہیں۔

بہرحال چترال کیلئے ایک ‘فل فلیجڈ یونیورسٹی’ میرا مطالبہ  ہے  ‘جہاں اُسکی اپنی عمارت ، اسٹاف ، کھیل کے میدان، ہاسٹلز ، لائبریری، انٹرنیٹ اور دوسرےسہولیات موجو د ہوں جس میں تعلیمی اور تحقیقی ماحول ہو  طلباء و طالبات اعلی تعلیم حاصل کر سکیں’۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔