ہاوسنگ سکیم۔۔۔محمد شریف شکیب

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غریب آدمی کو اپنا گھر بنانے کے لیے کمرشل بینک آسان شرائط پرقرضے فراہم کر رہے ہیں گورنر اسٹیٹ بینک نے وزیراعظم کی زیر صدارت ہاوسنگ سکیم سے متعلق اجلاس کو آگاہ کیا کہ تمام کمرشل بنکوں کے ساتھ مل کر اسٹیرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں آسان قرضوں کے حصول کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جاتا ہے۔کمرشل بینکوں نے ملک بھر میں 7,700 شاخوں میں گھر تعمیر کرنے کے لیے قرضے فراہم کرنے کی سہولت شروع کر دی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کی آگاہی کے لیے میڈیا مہم بھی جاری ہے۔کمرشل بینکوں کو قرضوں کے حصول کے لیے کثیر تعداد میں درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ سٹیٹ بینک نے شکایات کے ازالے کے لیے کمپلینٹ پورٹل کا اجرا کر دیا ہے جس پر صارفین قرضوں کے حصول میں پیش آنے والی شکایات درج کر سکتے ہیں۔ کمرشل بنکوں کی کارکردگی جانچنے کے لیے سٹیٹ بینک نے طریقہ کار وضع کیا ہے اور اس عمل کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔بنکوں کے سربراہان نے حکومت کو اس اہم قومی پروگرام کی تکمیل کے لیے مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اس منصوبے میں کل 35 ہزاریونٹس تعمیر کیے جائیں گے غریب اور متوسط طبقے کے لیے الگ یونٹس مختص ہوں گے ابتدائی مرحلے میں 4ہزاریونٹس تعمیر کیے جارہے ہیں۔ منصوبے کا پی سی ون اور ماسٹر پلان منظور کیا جاچکا ہے۔گھروں کی تعمیر کے لئے قرضے نیشنل بنک، حبیب بنک، یونائیٹڈ بنک، مسلم کمرشل بنک، الائیڈ بنک، بنک الحبیب، عسکری بنک، میزان بنک، فیصل بنک، جے ایس بنک اور بنک آف پنجاب، دبئی اسلامک بنک،سونیری بنک، بنک الاسلامی، حبیب میٹرو بنک، البرکا بنک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ، فرسٹ ویمن بنک اور بنک آف خیبر کی شاخوں سے دستیاب ہوں گے۔ گھروں کی تعمیر کے لئے سرمایہ فراہم کرنے والے ایک ادارہ پہلے سے کام کر رہا ہے مگر اس کے منافع کی شرح زیادہ اور شرائط نہایت سخت ہونے کی وجہ سے عام لوگ اس سے استفادہ نہیں کرپاتے۔کسی مجبوری کی وجہ سے اگر دو دچار قسطوں کی ادائیگی نہ ہوسکے توباقی سود مرکب کی وجہ سے ماندہ قسطیں ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا اور یوں مکان پر ادارے کا قبضہ ہوتا ہے اور وہ اسے نیلام کرکے اپنا سرمایہ وصول کرتا ہے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود مالک کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وزیراعظم ہاؤسنگ سکیم کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لئے ضمانتی ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں پانچ سال سے بیس سال تک ادائیگی کی سہولت دی گئی ہے۔ اور شرح منافع پانچ سے سات فیصد ہے۔اس منصوبے کی بدولت ملک کے لاکھوں شہریوں کا اپنا گھر تعمیر کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد رہائشی مکانات کی ضرورت ہے ہاؤسنگ سکیم کے ساتھ حکومت سرکاری اراضی پر سستے مکانات تعمیر کرکے اقساط میں ادائیگی کے طریقے پر لوگوں کو فراہم کرے تو ایک کروڑ گھروں کی تعمیر کا حکومتی وعدہ بھی پورا ہوگا اور بے گھر لوگوں کو سرچھپانے کے لئے چھت کی سہولت بھی میسر آئے گی۔حکومت نے ہاوسنگ سکیم کے لئے اربوں روپے کا فنڈز مختص کیا ہے، سرکاری وسائل کو ہڑپ کرنے کے لئے بڑے مگرمچھ بھی میدان میں آسکتے ہیں اس ملک کے غریب عوام، تنخواہ دار اور متوسط طبقے کی بہبود اور ترقی کے لئے شروع کئے گئے اس انقلابی منصوبے سے کچھ عناصر ناجائز فائدہ بھی اٹھاسکتے ہیں اس لئے قرضوں کے اجراء اور وصولوں کے نظام کو شفاف اور مانیٹرنگ کو موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ حکومت زرعی ترقیاتی بینک کے ذریعے زراعت کو فروغ دینے کے لئے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرتی ہے۔لیکن ان قرضوں کا 60فیصد غیر زرعی مقاصد کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ بینک افسران کی ملی بھگت سے لوگ نئی گاڑیاں خریدنے، شادی بیاہ، ٹھیکے حاصل کرنے، پرائیویٹ سکول یا دکان کھولنے اور سیرسپاٹے کے لئے بھی زرعی قرضے لیتے ہیں بینک افسران کی ملی بھگت سے دوسرے لوگوں کی زمینوں کے کاغذات پر بھی لوگ بھاری قرضے حاصل کرتے ہیں اور بااثر لوگ آفت زدہ یا دیوالیہ ہونے کا ڈرامہ رچاکر وہ قرضے معاف کراتے ہیں یا پھر دیفالٹر بن کر بھاگ جاتے ہیں قومی وسائل کے اس غیر قانونی استعمال کو روکنے کے لئے مانیٹرنگ اور آڈٹ کا نظام مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں کی فلاح وبہبود کے لئے مختص کئے گئے وسائل سے کوئی غیر مستحق ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔