مہنگائی میں کمی کے دعوے اور حقائق…محمد شریف شکیب

وزیر خزانہ عبد الحفیظ شیخ نے صوبائی حکومتوں کو اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں وزیر خزانہ نے مرغی کے گوشت، انڈوں اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹس لیا۔ انہوں نے سیکرٹری تجارت کو صوبائی حکومتوں اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے نمائندوں کے ساتھ مشاورت کرکے قیمتوں میں اعتدال لانے کی ہدایت کی،قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتاروچڑھاؤ کے رجحان کا جائزہ لیا۔ سیکرٹری خزانہ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پچھلے چار ہفتوں کے دوران مہنگائی کی شرح میں مسلسل کمی آ رہی ہے، خصوصاگندم، ٹماٹر، پیاز، آلو اور مرغی کی قیمت میں نمایاں کمی ہوئی، ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اعشاریہ22 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔سیکرٹری فوڈ سکیورٹی نے گندم اور چینی کے ذخائر کی موجودہ صورتحال پر کمیٹی کوبریفنگ دی اور دونوں اشیاء کی بہتر فراہمی کے نتیجے میں قیمتوں میں نمایاں کمی آنے کا دعویٰ کیا۔قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی جن لوگوں پر مشتمل ہے انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہوں نے کبھی بازار جاکر گوشت، چکن، سبزیاں، دالیں، گھی، چینی، مصالحے اور انڈے نہیں خریدے،میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے تو ان سے صحافی نے آلو کی قیمت پوچھی وزیراعظم کا جواب تھا کہ آلو پانچ روپے کلو ہر جگہ دستیاب ہے۔حالانکہ اس وقت آلو کی قیمت ساٹھ روپے کلو تھی۔عام لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ حکومت جس چیز کا نوٹس لیتی ہے اس کے داموں میں ہوشرباء اضافہ ہوتا ہے۔قیمتوں کا جائزہ لینے کے لئے قائم کمیٹی میں دعویٰ کیا گیا کہ چکن اور انڈوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے حالانکہ مرغی کا گوشت130روپے کلو سے221روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔انڈوں کی قیمت 120روپے درجن سے 240روپے درجن ہوگئے ہیں بازار میں قابل استعمال معیاری گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں حالیہ مہینے بیس فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ غریبوں کی سبزی آلو، شلغم، گاجر، پیازاور ٹماٹرکی قیمتیں بھی 80روپے سے 100روپے کے درمیان ہیں۔متوسط اور غریب طبقے کے لئے دال کھانا اب عیاشی کے زمرے میں آگیا ہے۔اس صورتحال میں ”یہ منہ اور مسور کی دال“ والا مقولہ سچ ثابت ہوا ہے۔قیمتوں میں کمی دکانداروں، چھابڑی فروشوں، ریڑھی بانوں اور تندورچیوں پر چھاپوں سے نہیں آسکتی۔ مارکیٹ کو مال سپلائی کرنے والے جب دام بڑھاتے ہیں تو دکانوں اور ریڑھیوں تک پہنچتے پہنچتے ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوجاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ دکاندار 60روپے کا آلو خرید کر 50روپے میں بیچے یا 18روپے کا انڈہ خرید کر دس پندرہ روپے میں فروخت کرے۔پرچوں فروشوں سے جب بھی دام بڑھنے کی وجہ پوچھیں تو سب کا یہی جواب ہوتا ہے کہ مال پیچھے سے مہنگا آرہا ہے۔ اور پیچھے چھپ کر اشیائے ضروریہ کے دام بڑھانے والے جاگیردار، صنعت کار، برآمدکنندگان اور بڑے تاجر قومی ایوانوں میں بیٹھے ہوتے ہیں حکومت یا سرکاری ادارے پر جل جانے کے خوف سے ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتے ہیں۔صدر، وزیراعظم، وفاقی و صوبائی وزراء اور اعلیٰ افسروں کی بات ہی نہ کریں قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے عوام کے منتخب نمائندوں سے بھی سبزیوں، دالوں اوردیگر اشیائے ضروریہ کی قیمت پوچھیں تو ان کو کچھ پتہ نہیں ہوگا۔جمہوری نظام میں اگر حکومت عوامی مفادات کے برعکس کوئی غلط کام یا فیصلے کرے تو اپوزیشن اسے غلط کام کرنے سے روکتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں بیٹھے عوامی نمائندے ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں وہ میڈیا کے سامنے آکر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں اندر سے سب ملے ہوئے ہیں انہیں عوام کی زرا برابر فکر ہے نہ ہی وہ عام آدمی کو درپیش مسائل سے واقف ہیں۔کیونکہ ان کا واسطہ کبھی عوام سے نہیں رہا۔ وہ اوپر سے مسلط ہوتے ہیں دادا کے بعد بیٹا، پھر پوتا اور اس کے بعد پڑپوتا ہمارا لیڈر بنتا ہے۔موہن داس کرم چند مہاجنوں کی جھونپڑیوں میں آکر رہتے تھے۔تب انہیں عوام کے دکھوں، مشکلات اور تکالیف کا احساس ہوتا ہے۔محل نشینوں کو جھونپڑی نشینوں کے دکھوں کا علم کہاں ہوتا ہے۔وزیراعظم عمران خان کواگر واقعی غریب عوام کی فکر ہے تو اپنی معاشی ٹیم کی ”سب اچھا“ والی رپورٹ پر یقین کرکے مہنگائی اور بیروزگاری کم ہونے کی دعویٰ اور لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی سے حتی المقدور احتراز کریں اور زمینی صورتحال معلوم کرکے مسائل کا قابل عمل حل تلاش کریں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔