تجار یونین چترال کا اے سی چترال ثقلین سلیم کا فوری تبادلے کامطالبہ۔تبادلہ نہ کرنے کی صورت میں 10جنوری کو احتجاجاً بازار بند کرنے کا اعلان

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس) تجاریونین چترال نے اسسٹنٹ کمشنر چترال ثقلین سلیم کی طرف سے چترال شہر میں تاجروں کو مبینہ طور پر تنگ اور ہراسان کرنے اور ان پر من مانی طور پر بھاری جرمانہ عائد کرنے کے واقعات کی انکوائری کرنے کے لئے چیف سیکرٹری خیبر پختونخوا سے پرزور مطالبہ کیا ہے اور اس افسر کا چترال سے فوری طور پر ٹرانسفر نہ کرنے کی صورت میں بازار کو10جنوری کو احتجاجاً بند کرنے کا اعلان کردیا۔ بدھ کے روز چترال پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے تجار یونین کے صدر شبیر احمد خان اور دوسرے تاجر رہنماؤں کفایت اللہ، سراج احمد، حاجی شیر حکیم خان، شیخ صلاح الدین، قاضی شفیق احمد اور دوسروں نے کہاکہ دس دن اپنے عہدے کا چارج سنھبالنے کے بعد سے انہوں نے تاجروں کا جینا حرام کررکھا ہے اور کسی قانون یا ایکٹ کی کسی دفعہ کا حوالہ دئیے بغیر دس دس ہزار روپے کی بھاری جرمانہ لگارہے ہیں جوکہ اپنی جگہ غیر قانونی ہے کیونکہ کوئی بھی افسر یا جج کسی قانون کا حوالہ دے کر لوگوں کو قیداور جرمانے کی سزا سناتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کووڈ 19کی پہلی لہر کے نتیجے میں چترال کا تاجر طبقہ پہلے ہی پریشان حال ہے اور اب پر بھاری جرمانہ عائد کرنا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہاکہ کورونا سے بچنے کے لئے ماسک پہننا صرف دکانداروں پر ہی لازم نہیں بلکہ تمام عوام کو اس کا پابند بنانا چاہئے مگر اے سی چترال نے گزشتہ دنوں ٹاؤن ہال میں منعقدہ پی ٹی آئی کے پروگرام کا کوئی نوٹس نہیں لیا جس میں کسی نے ماسک نہیں پہن لیا تھا۔ تاجررہنماؤں نے کہاکہ بازار میں بایو ڈیگریبل شاپنگ بیگز پر اسسٹنٹ کمشنر صاحب دکانداروں کو بھاری جرمانے کررہے ہیں لیکن تاجر برادری اس بات پر حیران ہیں کہ وہ کون سی شاپنگ بیگ استعمال کرے کیونکہ گزشتہ ڈیڑھ سالوں کے دوران یہاں تعینات ہونے والے چار مختلف اسسٹنٹ کمشنروں نے اپنے اپنے پسند کے شاپرز تاجروں سے منگواکر انہیں مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کم وزن کی چکن فروخت کرنے پر چکن فروشوں کو جرمانہ کرنا اور جیل بھیجوادینا خود انتظامیہ کی ناکامی ہے کیونکہ ڈیڑھ کلوگرام سے کم وزن کا چکن لواری ٹنل سے چترال نہ چھوڑنے کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے جس پر عملدرامد ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اور اس کے باوجود کم وزن کا چکن یہاں پہنچنا اپنی جگہ سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک طرف اے سی چترال نے تاجروں کے ساتھ اپنی بداخلاقی اور خراب روئیے کی انتہا کردی ہے تو دوسری طرف ان کے باڈی گارڈز بھی دکانوں میں گھس کر ادوھم مچاتے ہیں جوکہ سراسر غیر قانونی حرکت ہے جس کا لیویز کے اہلکاروں کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مذکورہ افسر چترال بازار میں حالات کو تیزی سے خرابی کی طرف لے جارہے ہیں اور وہ برملاکہتے ہیں کہ تاجر ہڑتال کریں تو وہ سب کو جیل بھیجوادے گا جبکہ اسسٹنٹ کمشنر (ریونیو) شہزاد بھی تاجروں کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور ان کے پاس جانے پر لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہارکیاکہ اگر ایک دکاندار روزانہ 500روپے کمانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو وہ پانچ سے لے کر دس ہزار روپے کیسے جرمانہ بھر سکتا ہے اور کئی دن جیل میں بند رہ کر اپنے بال بچوں کو کیسے بھوک اور فاقے کے حوالے کرتا ہے۔ انہوں نے حلال فوڈ اتھارٹی کی طرف سے چھوٹے تاجروں کو لائسنس لینے پہ مجبور کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ لائسنس کی پابند ی صرف ضلعی سطح پر متعلقہ اشیاء کے ایجنسی ہولڈروں کو جاری کئے جائیں۔ انہوں نے نانبائیوں کو بے جا تنگ کرنے کی بھی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ جب چترال میں چالیس کلوگرام فائن آٹے کی قیمت 2200روپے تھی تو انتظامیہ نے 270گرام روٹی کی قیمت 20روپے مقررکی تھی جبکہ اب آٹے کی قیمت 3200ہونے کے بعد بھی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔