اٖفکار آیت ۔۔۔ولی الرحمان ایڈوکیٹ (مرحوم)۔۔۔تحریر: نورالھدیٰ یفتالیٰ

وہ لوگ ہم نے اک ہی شوخی میں کھو دیئے
ڈوھونڈا تھا آسمان نے جنہیں خاک چھان کے

یوں توچھترار خود بھی حسین ہے اور اپنے کوک میں کئی حسین لوگوں کو بھی جنم دیا ہے۔کھوار زبان میں ایک مہاورہ ہے۔ ”جمو دینا نیکی“۔اس دنیا میں اچھے لوگ جلد چلے جاتے ہیں۔
سن 1948 مملکت خداداد کی تاریخ میں وہ سال شمار کیا جاتا ہے اس سال اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا کی نقشے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوا تو اسی سال چھترار جیسے پسماندہ علاقے میں کئی نامور شخصیات جنم لیے، ان عظیم شخصیات میں ایک نام ولی الرحمان ایڈوکیٹ کا بھی تھا، ولی اور رحمان کا ملاپ جیسا نام ویسا کام ویسا وعمل تھا۔کم گو،مہمان نواز،نفیس اور مہذب شخصیت کے مالک ولی الرحمان ایک مکمل عہدہ تھا۔
1953کی دہائی میں چھترار کے خوبصورت اور چھوٹا سا گاوں کوغذ ی کے ٹاٹ سکول سے تعلیم حاصل کرنے والا ولی الرحمان نہ جانے کس عظیم مقصد کے واسطے اس دنیا میں آیا تھا،1965 میں گورنمنٹ ہائی سکول چھترار میں میٹرک کے امتحان میں پورے چھترار میں دوسری پوزشن حاصل کر لی1966تا1969 تک گورنمنٹ کالج پشاور سے ایف اے اور بی اے کی ڈگری حاصل کی۔اسی سال قانون کی اعلیٰ تعلیم کے واسطے لا کالج میں داخلہ لے لیا اپنے قابلیت اور محنت کے بدولت سے اسکالر شب حاصل کی،1979 میں محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر کی امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کی اور اور بحیثیت سب انسپکٹر کے عہدے کی چارچ سنبھال لی۔نفیس اور مہذب ولی الرحمان جو انسانیت کی بہتر خدمت کے جذبے سے سرشار تھا اپنے انسانیت کے خدمت کے لئے دیکھے گئے خوابوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کو مکمل آزادی اور اظہار رائے چایئے تھا، تو اسی نیک مقصد کے لیے بہت جلد اور مختصر عرصے میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ د یدیا۔اور چھترار ہی میں قانون کی پریکٹس شروع کر دی۔1979 میں جوڈشیری کی امتحان پاس کی اور بحیثیت ایڈیشنل سیشن جج تعینات ہوئے اور مرادن میں اپنی بہتریں خدمات انجام دی۔
اپنے شایستگی،انداز گفتگو،و مہذب حسن سلوک کی بدولت چھترار کے کونے کونے میں لوگوں کے دلوں میں اپنے لئے ایک منفرد جگہ بنانے میں کامیاب ہوا،1981 میں بلدیاتی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کرکے ممبر ڈسٹرکٹ کونسل مقرر ہوئے اور یہ ثابت کر دیا کہ ولی الرحمان واقعی میں ولی ہیں۔

ولی الرحمان مرحوم کے مثبت ذہن میں گزشتہ کئی سالوں سے جو نیک مقصد گردش کر رہاتھا، اس نیک مقصد کو عملی جامعہ پہنانے کا وقت آ چکا تھا، ولی چاہتا تھا کہ چھترار میں ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم ہو جو دور حاضر کے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور سب کے لئے یکسان تعلیم مہیا کیا جاسکے، جو امیر و غریب کے لئے برابر ہو،اپنے عظیم مقصد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے1980 اور1981 میں اپنے دوستوں جس میں اس وقت شہزادہ شجاع الرحمن،حیدر علی شاہ اتالیق،شہزادہ سکندار الملک، ناصر احمد،میجر شمس کو لے کر ماونٹین ان ہوٹل کے باغییچے میں ایک کمیونیٹی سکول کی تعمیر کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔
کہتے ہیں کہ اگر نیت صاف اورعمل ا چھا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی نیک کام میں اپنے بندوں کا ساتھ دیتا ہے۔شفاف اور نیک ذہنیت کے دماغ سب ایک ہی مقصد کے لئے بیٹھے تھے،آخر کار ولی کے دوستوں نے ملکر ولی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر جاوید مجید سے اس ادارے کی تعمیر کے لئے اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔یہ منصوبہ سنتے ہی جاوید مجید ڈپٹی کمشنر چھترار بھی اس نیک مقصد کے کاروان میں شامل ہوئے اور جنگ بازار کی احاطے میں سرکاری عمارت کو سکول کے لئے استعمال کرنے کی حامی بھردی، ولی الرحمان نے ایک بارپھر دوستوں کی مشاورت سے سکول کا نام سایورج پبلک سکول رکھا اور خود سایورج پبلک سکول کے بورڈ ممبر میں شامل ہوئے۔ اس سکول کو آج کل لینگ لینڈ سکول اینڈ کالج کہا جاتا ہے۔

ولی لرحمان ایڈوکیٹ 1980 کے دہائی میں فری اسٹائل پولو کھیلنا شروع کیا، ان کے گہرے دوستوں میں سے شہزادہ سکندر الملک کے بقول چھترار کے بہترین کھلاڑیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ولی کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا، ولی الرحمان کے دوست امیر اللہ خان یفتالیٰ کے بقول وہ ایک بہترین شہسوار تھا، اور یاروں کا یار تھا،ولی الرحمان مرحوم چھترار اے کا کھلاڑی تھا،1997 کے ڈسٹرکٹ پولو ایونٹ میں چھترار اے ٹیم نے چھترار اسکاوٹس کو مات دی تھی اس وقت کے مہمان خصوصی ڈیوک آف ایڈن برک پرنس فیلپ آٖف انگلینڈ تھا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔