کتابوں کی حسین دنیا:…ڈاکٹر حمزہ گلگتی

اچھی کتابیں عظیم دوست، تنہائی کے ساتھی، وقت گزاری کے بہترین مصارف، ٹینشن اور ڈیپریشن کا انمول علاج، جذبات کی بہترین ترجمانی کے زرائع، انسانی زندگی کیلئے راہنما اصول، اچھائی اور حق بات کے جذبے ابھارنے والی بہترین اشیاء، اور علم اورمعلومات فراہم کرنے والی اکمل ٹولز ہوا کرتی ہیں.. اس سے شاید ہی کسی کو انکار ہو… انکار تو کسی کو نہیں ہوگا.. مگرکتابوں کا ذوق اور مطالعے کا شوق رکھنے والے نہایت قلیل ہونگے مجھ سمیت…. بلکہ اس دور میں آٹے میں نمک کے برابر.. کتابوں سے محبت نہ کرنے والے احمق ہی کم ہی ملیں گے… نصیب والے ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں کتب بینی کا شوق، مطالعے کا ذوق عطا ہوجاتی ہے.یہ عطا محنت مشقت کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے. ان کا چسکا اور ان میں غرقاب ہونے کی لذت ذوق والوں کو ملتی ہیں..حرماں نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں کتابیں تو میسر ہوں مگر وہ کچھ وقت ان کی ورق گردانی کیلئے صرف نہ کرے… خودکتاب توایک طرف کتاب والے تو وقت بیتانے کے لئے کتابوں کے رسیا لوگوں سے بھی محبت کرتے ہیں… اقوام عالم کی ترقی میں کتب بینی کا بڑاہاتھ ہے بلکہ یوں کہیے یہ ترقی ممکن ہی کتابوں سے محبت کی بناپر ہوئی ہے۔۔کتابوں سے محبت انہیں سجا کر رکھنا نہیں بلکہ انہیں پڑھنا اور ان سے علم، شعور اور آگاہی لینا ہے۔۔انکار نہیں کہ آج اوجِ ثریا پر کمند جن اقوام نے ڈالی ہیں ان کی ترقی کے پیچھے ان کا ذوق مطالعہ اور شوق کتب بینی ہی کارفرما نظر آتی ہے..اکثرکامیاب لوگوں کے تانے بانے کتابوں سے ہی جا ملتے ہیں.. ان کی ترقی کا راز کتب بینی ہے…مغرب میں اب بھی بہت سارے لوگ دورِ حاضر کے سہل انگیز ذرائعوں کے باوجودسفر وحضرمیں بھی، بیٹھے لیٹے، کھڑے، ذوق مطالعہ والے، کتابوں پر نظر ٹکائے جابجا دکھتے ہیں۔۔میری خوش نصیبی کہ چارسالہ عرصہ یورپ میں بھی جس یورپین دوست سے سابقہ پڑا وہ کتابوں اور مطالعے کا رسیا اور لغویات سے دور نظریات کا حامل تھا۔۔ہماری اکثر نشستوں میں کتابیں ہی زیرِ بحث رہتیں۔۔کئی اچھی کتب اس نے تحفتاً عنایت کی۔۔گھر میں میرے لڑکپن سے کتابوں کے شوقین لوگ موجود تھے۔۔بھائی مکرم مفتی صباح الدین بھی کتابوں کے رسیا۔۔ہماری اونچ نیچ کتابوں کی وجہ سے ہی ہوتی رہتی ہے۔۔کبھی وہ کہے یہ میری کتاب تھی کبھی میں بولوں آپ کے شیلف میں فلاں فلاں میری کتاب ہے۔۔
گزشتہ ایک ماہ سے ہم دونوں نے طے کیا کہ اتوار کو صدر کراچی ریگل چوک میں لگنے والی قدیم کتب بازار کا دورہ کرینگے اور ذوق مطالعے سے میل کھاتی جوکتابیں دستیاب ہونگی لینگے.. یاد رہے ریگل چوک میں اتوار کتب بازار سے عظیم ادباء، شعراء، معلمین، پروفیسرز، حکماء علماء کی یادیں وابستہ ہیں۔۔کہا جاتاہے کہ عظیم ادباء اور متبحر علماء بروز اتوار صبح سویرے ہی ریگل چوک کے نکڑ پہ کھڑے یا کسی چائے خانے میں چائے کی چسکیاں لیتے ارزاں نرخوں میں کتابیں خریدنے کیلئے کتابوں کے اسٹال لگنے کے منتظررہتے۔۔ پھر وہیں گھنٹوں ڈھونڈتے اور جو جو موتیاں کتابی صورت میں ہاتھ لگتی اٹھالیتے۔۔ہم بھی ان کی سنت پوری کرنے اس اتواروہی پہنچ ہی گئے۔۔اطمینان یوں ہوا کہ اس دور میں بھی کتابوں سے شغف رکھنے والے باکمال لوگ کچھ تو موجودہی ہیں۔۔کافی رش تھا لوگ کتابیں کھنگال کھنگال نکالنے میں لگے تھے.. ہم بھی دیوانوں کے اَس بھیڑمیں گھس گئے۔۔پھر یوں ہوا کہ نہ بھائی کو پتہ چلا میں کس کونے میں ہوں نہ مجھے معلوم رہا کہ وہ کس جانب کتابوں کی رو میں بہہ نکلا ہے۔۔
. ایک بارپرانی کتابوں کی تلاش میں مگن چشمِ بیتاب اٹھاکے دیکھا توبھائی صاحب کی جھانک تانک سے میری تو ہنسی ہی چھوٹ گئی یوں ایک آدھ بارٹکرائے ضرور لیکن شومئی قسمت کہ اس دوران اپنی خریدی کتابیں مجھ پہ لاد کے وہ آزادی سے اور ڈھونڈھنے نکلے.. گھنٹوں بعد جب ملے تو کافی ساری کتابیں بغل میں دبائے ہاتھ میں اٹھائے آ نمودار ہوئے.. بولا افسوس ایک اچھی کتاب اس بابے نے لے گیا کوئی مخطوطہ تھی.. میں گویا ہوا….. توچھین لیتے؟؟؟انہوں نے اشارہ کرکے بتیا وہ دو بابے اتنی کتابیں سمیٹے کہ بوریوں میں بھر گئے. میں نے کہا کہ شاید یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس ڈسٹرب کرنے کو سمارٹ فون تک نہیں ہونگے.. یہ ڈاکٹر عبدالحمید کٹیگری کے لوگ ہونگے جو استراحت بھی کتابوں کے بیچ فرماتے ہونگے، اور نماز بھی وہی ادا کرتے ہونگے.. فرمایا کہ بجا فرمایا….یوں اس اتوار کو ہم نے کتابوں کی اس حسین دنیاکی سیر سے قت کو ہی قیمتی نہیں بنایا بلکہ قلیل دام میں کثیرگوہرِ نایاب حاصل کرکے پیسے بھی بچائے۔۔کوڑیوں کے مول ایک ایسی کتاب بھی ہاتھ لگی جسے رومانیہ کی ایک بک شاپ میں متعدد بار لینے کا سوچا لیکن ارادہ ترک کیا کہ جیپ پر بھاری پڑرہاتھا۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔