چمرکن کے رہائشی عمر فاروق کا جی ایچ ایس چمرکن میں کلاس فور کی آسامی پر تعیناتی میں ناانصافی کے خلاف پریس کانفرنس،ڈی ای او کے خلاف انکوائری کا مطالبہ

چترال (نمائندہ چترال ایکسپریس) چترال شہر کے نواحی گاؤں چمرکن کے رہائشی عمر فاروق ولد عبدالاعظم نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا، چیف سیکرٹری، سیکرٹری ایجوکیشن اوردیگر حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ گورنمنٹ ہائی سکول چمرکن میں کلاس فور کی اسامی پر تعیناتی میں ان کے ساتھ کی گئی ظلم اور ناانصافی کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تعیناتی کے آرڈر کو فی الفور منسوخ کرتے ہوئے ڈی ای او (میل) لویر چترال کے خلاف انکوائری کرائی جائے بصورت دیگر وہ سکول کو تالا لگانے پرمجبور ہوں گے جبکہ پورا گاؤں ان کی حمایت میں سراپا احتجا ج ہوگا۔ جمعہ کے روز چترال پریس کلب میں گاؤں کے عمائیدیں محمد فاروق، محمد سبحانی، عبدالعلیم، رحمت حاجی، شیر حسین، غلام مصطفی اور دیگر کی معیت میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ان کے باپ نے ہائی سکول چمرکن کے لئے ایک چکورم زمین دے کر کلاس فور ملازمت حاصل کی تھی اور معاہدے کے مطابق ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ زمین ان کے بیٹوں کوملنا تھاجبکہ محکمہ نے گزشتہ دنوں ا ن کے باپ کے ریٹائرہونے کے بعد اس پوسٹ پر ایک غیرمقامی شخص کو بھرتی کیا جوکہ جے یو آئی کے سابق ضلعی امیر قاری عبدالرحمن قریشی کا بیٹا انس الرحمن ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس غیر قانونی تعیناتی میں جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے مولانا ہدایت الرحمن ملوث ہے۔ انہوں نے کہاکہ انہوں نے باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اٹھارہ ماہ تک اس سکول میں اپنے باپ کی جگہ بغیر تنخواہ کے ڈیوٹی سرانجام دیتا رہا جبکہ وہ جسمانی طور پر معذور بھی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قاری عبدالرحمن قریشی غیر مقامی شخص ہے جس کے بیٹے کو اس گاؤں میں لاکرسرکاری ملازمت دے کر مقامی لوگوں کا حق مارنا اسلام کے دعویداروں کے لئے باعث شرم ہے۔ عمر فاروق نے کہاکہ ان کا خاندان 1970ء سے جے یو آئی کا حامی اور ووٹر ہے لیکن ایم پی اے کی اس شرمناک کردار کی وجہ سے اُس نے جے یو آئی کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس نا انصافی سے اہالیان چمرکن میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے اور وہ اس کے خلاف میدان میں آنے کے لئے تیار ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔