وزیراعظم کا اظہار برہمی…محمد شریف شکیب

وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزراء کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزراء اپنی کارکردگی اور وزارتوں پر گرفت مضبوط کریں شہریوں کے مسائل سے جڑی وزارتوں کے پاس غلطی کی گنجائش نہیں ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم نے بعض وزراء کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیاوزیراعظم نے بعض وزراء کی طرف سے حکومتی پالیسیوں پرنکتہ چینی کا بھی سخت نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ جو وزراء حکومتی پالیسیوں کا دفاع نہیں کرسکتے ان کا وزارت کی کرسی پر براجمان رہنے کا کوئی جواز نہیں۔انہیں وزارت چھوڑ کر گھروں میں بیٹھنا چاہئے۔وزیراعظم کے شدید ردعمل سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وزارتوں میں وسیع پیمانے پر ردوبدل کا امکان ہے۔گذشتہ اڑھائی سالوں میں پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں وزیروں کے تبادلے کرتی رہی ہیں۔جس کی ملک کی سیاسی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ وزیراعظم نے بلیک میل کرنے کی کوشش پر حلیف جماعتوں کو بھی حکومتی اتحاد سے الگ کیا۔ سینٹ کے گذشتہ انتخابات میں ووٹ بیچنے کے الزام میں اپنے درجنوں ایم پی ایز کو پارٹی سے نکال دیا۔عددی اکثریت کھونے اورحکومت ختم ہونے کے خطرات کی پروا کئے بغیر کرپشن میں ملوث اپنے ممبران کے خلاف کاروائی کرنا ہماری جمہوری تاریخ کا منفرد واقعہ ہے جس کو سراہا جانا چاہئے۔وزیراعظم کی طرف سے وزراء کو کارکردگی بہتر بنانے کی تنبیہ کواپوزیشن نے حکومت کی ناکامی قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے پر وزیراعظم کی برہمی اور وزراء کو اپنی کارکردگی بہتر بنا نے کی تلقین اس حقیقت کا مظہر ہے کہ وزیراعظم کو ”سب اچھا“ کی رپورٹ سے اتفاق نہیں ہے اور وہ زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہیں۔بجلی، گیس اور تیل کی مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرنے کے لئے جو ادارے بنائے گئے ہیں وہ شتر بے مہار ہوچکے ہیں۔یکم سے دس جنوری کے دوران بجلی کی قیمتوں میں دو مرتبہ اضافہ کیا گیا۔جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ نئے سال کی آمد کے ساتھ گیس، پٹرولیم مصنوعات، گھی، کوکنگ آئل اور ایل پی جی کی قیمتیں بھی بڑھادی گئیں کمرتوڑ مہنگائی کی وجہ سے غریب لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑگئے ہیں گیس، تیل اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے ضرورت کی ہرچیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ مگر وزیراعظم کے آس پاس بیٹھے لوگوں کو عوام کی مشکلات اور مجبوریوں کا علم ہی نہیں،جن لوگوں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم نہ ہو۔ وہ عوام کے دکھوں کا کہاں احساس کرسکتے ہیں۔وزیراعظم کو یقینی طور پر یہ احساس ہے کہ ان کی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں لیکن مہنگائی کا بے قابو جن حکومت کی ڈانواں ڈول کشتی کو ڈبو سکتا ہے۔ ایک مرتبہ وزیراعظم سے پوچھا گیاکہ آپ کی کابینہ میں سارے وہی لوگ ہیں جو اس سے پہلے ضیاء الحق، جونیجو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور نگران حکومتوں کے ساتھ بھی رہے ہیں اور کرپشن کے داغ سے کسی کا دامن بھی پاک نہیں تو وزیراعظم کا جواب تھا کہ سیاست میں یہی لوگ دستیاب ہیں، فرشتے کہاں سے لاؤں؟ہمارے ہاں ملک و قوم کی خدمت کے جذبے سے سرشار لوگوں کی کمی نہیں ہے لیکن ہمارے جمہوری نظام کا المیہ یہ ہے کہ تمام جماعتیں انتخابات میں ٹکٹ دیتے وقت Electablesکو ترجیح دیتی ہیں تاکہ ان کی ضمانتیں بچ جائیں اور پھر ہماری سیاست میں قابل اور مخلص لوگوں کے لئے راہیں بھی مسدود ہیں۔عام لوگ انتخابی اخراجات اٹھانے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ جو لوگ انتخابی مہم میں کروڑوں روپے لگاتے ہیں وہ منتخب ہوکر سب سے پہلے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔اس کے بعد اگلے الیکشن کے اخراجات جمع کرنے میں لگ جاتے ہیں۔اقتدار کے ایوانوں میں کرپٹ لوگوں کے آنے کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ ماتحتوں کو بھی کمانے پر لگادیتے ہیں ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں خرد برد ہوتا ہے، سرکاری نوکریاں منہ مانگے داموں فروخت کی جاتی ہیں بین الاقوامی معاہدوں میں کمیشن لئے جاتے ہیں۔سیاسی جماعتوں نے عوام کو زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں میں پھنسا کر رکھا ہوا ہے۔جلسوں اور ٹاک شوز میں ایک دوسرے کو صلواتیں سنانے والے ذاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک ہوجاتے ہیں۔اسمبلیوں میں مہنگائی اور بے روزگاری کی بات آجائے تو حکومت اور اپوزیشن کسی نکتے پر متفق نہیں ہوتے۔ اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے پر ایوان میں مکمل اتفاق رائے پایاجاتا ہے۔ یہی طرز سیاست گذشتہ ستر سالوں سے جاری ہے اور آئندہ بھی اس میں کسی تبدیلی کا امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔