خالی اسامیوں کا خاتمہ….محمد شریف شکیب

وفاقی حکومت نے مختلف وزارتوں، ڈویژنوں اورسرکاری محکموں میں 70 ہزار خالی آسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 117سرکاری ادارے یا تو ختم یا دوسرے اداروں میں ضم کئے جائیں گے۔ اداروں کے خاتمے اور انضمام کے بعد وفاقی حکومت کے اداروں کی تعداد 441 کے بجائے 324رہ جائے گی۔ ملازمین کے بنیادی پے اسکیل،تنخواہوں و مراعات کے بارے میں بھی پے اینڈ پنشن کمیشن فروری 2021 میں رپورٹ پیش کرے گا۔ حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس برائے کفایت شعاری و تنظیم نو نے پیش رفت کی رپورٹ تیار کرلی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی اداروں کی اقسام 14 سے کم کرکے ایگزیکٹو ڈیپارٹمنٹ،خود مختار اداروں اور قانونی اداروں پر مشتمل تین مختلف کٹیگریزمیں تقسیم کی گئی ہیں۔رولز اینڈ بزنس میں کمی لانے اور سادہ بنانے کیلئے کام جاری ہے۔نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ فروری میں کام شروع کرے گا رپورٹ کے مطابق سول انتظامیہ کے اخراجات جاریہ کم سے کم سطح پر منجمد کئے جارہے ہیں وزارتوں اور ڈویژنوں کو اپنے ماتحت اداروں میں ایم پی اسکیل اور اسپیشل پے اسکیل پر دنیا بھر سے قابل،ماہر پروفیشنل بھرتی کرنے کیلئے اشتہارات دینے کی اجازت دے دی گئی ہے حکومتی اخراجات کم کرنے کے لئے کرائے کی عمارتوں میں قائم سرکاری دفاتر کو حکومت کے ملکیتی کوہسار بلاک میں منتقل کیا گیا ہے۔ اداروں کے انضمام کے تحت کامرس اور ٹیکسٹائل ڈویژن اور پوسٹل اینڈ کمیونیکیشن ڈویژن کو آپس میں ضم کیا گیا ہے۔حکومت کے ناقدین 70ہزار خالی اسامیوں کے خاتمے کے فیصلے کو ملازم کش پالیسی سے تعبیر کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پانچ سالوں میں ایک کروڑ افراد کو ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ گذشتہ تین سالوں میں معاشی بحران کی وجہ سے مختلف اداروں سے لاکھوں ملازمین کو فارع کردیا گیا۔ اب سرکاری ملازمتوں پر بھی چھری پھیرنے کا اہتمام کیاجارہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے چند سرکاری اداروں میں 70ہزار اسامیاں خالی ہونے کے باوجود جب کام کا حرج نہیں ہورہا۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان اسامیوں کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ ماضی میں حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات اور کمیشن کی خاطر سرکاری محکموں میں تھوک کے بھاؤ بھرتیاں کیں۔ جس کی وجہ سے اداروں پر ملازمین کا اضافی بوجھ پڑگیا۔ ادارے سال میں جتنا کماتے تھے۔اس سے تین گنا ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہونے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ریلوے، سٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنزجیسے منافع بخش ادارے خسارے میں چلے گئے۔ان کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے اور حکومت کو سالانہ ان اداروں کے لئے اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکج دینے پڑ رہے تھے۔ سٹیل مل کئی سالوں سے بند ہے اور اس کے ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک لوگوں کو گھر پر بٹھا کر تنخواہیں دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ آج ہماری معیشت کی حالت دگرگوں،قوم پر بیرونی و اندرونی قرضوں کا بے تحاشا بوجھ اسی وجہ سے ہے کہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھاری شرح سود اور ناپسندیدہ شرائط پر قرضے لینے پڑتے تھے۔یہ فطری امر ہے کہ جب باپ محنت مشقت کرکے مہینے میں بیس ہزار روپے کماتا ہے تو میاں بیوی اور تین بچوں کا خرچہ بمشکل اٹھاسکتا ہے۔ جب آٹھ دس بچے پیدا کئے جائیں تو گھر میں فاقوں کی نوبت آنا لازم ہے۔ افراد کی طرح حکومت کو بھی چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلانے چاہیئں۔وفاقی سطح پر 441سرکاری محکموں کا وجودقرضوں میں جکڑی ریاست پر ناقابل برداشت بوجھ ہے۔حکومت کفایت شعاری مہم کو قومی مفاد میں ان تمام اداروں تک توسیع دینی چاہئے جن کے ملازمین قومی خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں اور ان سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔قومی وسائل پر ملازمین کی فوج ظفر موج پالنے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔