ترش و شیرین…سیاست برائے سیاست یا سیاست برائے عوام۔..، نثار احمد۔

سیاست برائے عوام بھی ہوتی ہے اور سیاست برائے اپنی جماعت بھی۔ سیاست انسانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے بھی ہوتی ہے اور سیاست برائے سیاست بھی۔ پہلی قسم کی سیاست کا مرکز عام آدمی کا مسئلہ ہوتا ہے جبکہ دوسری قسم کی سیاست کا محور محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ۔ پہلی قسم کی سیاست کو مثبت تعمیری سیاست کہتے ہیں جبکہ دوسری والی کو سیاست برائے سیاست۔ ہمارے ہاں کی سیاسی جماعتیں ماشاءاللہ “سیاست برائے عوامی خدمت” کی بنسبت سیاست برائے سیاست پر زیادہ یقین رکھتی ہیں۔ عوامی ایشوز اور عام آدمی کے مسائل بھی اِن کے ایجنڈے میں ہوتے ہوں گے لیکن تب جب کریڈٹ اپنی جماعت کی جھولی میں گر رہا ہو۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ترتیب شدہ “ترجیح” کی فہرست میں پارٹی مفاد مقدم ہی رہا ہے جبکہ عوامی مفاد مؤخر نہایت مؤخر۔ کونسی سیاسی پارٹی محض عوامی خدمت پر یقین رکھتی ہے اور کونسی عوام کو ماموں بنانے پر؟ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کسی ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے علاقے کے لئے کوئی مفید پراجیکٹ لانچ کیا جاتا ہے۔ ماموں بنانے والی پارٹیاں پراجیکٹ کی راہ میں روڑے نہ بھی اٹکائیں کم از کم اُس پراجیکٹ کی کامیابی کے حق میں نہیں ہوتیں۔
پچھلے ٹینیور کے لئے چترال سے منتخب ایم این اے شہزادہ افتخار الدین کی لازوال انتھک سیاسی اور دفتری جدوجہد کے بل بوتے پر چترال کے ایک حصّے کے لئے سستی گیس کا پراجیکٹ منظور ہی نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے لئے زمین کی خریداری کے ساتھ ساتھ مطلوبہ سازو سامان بھی باہر سے درآمد کیے گئے تھے۔ گیس پلانٹس کے لئے زمینیں دروش،بروز اور سنگور میں خریدی گئی تھیں جب کہ ساز و سامان درآمد ہونے کے بعد ترسیل و تنصیب کے انتظار میں لاہور میں پڑے تھے۔ پھر دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں شہزادہ صاحب کے قومی اسمبلی نہ پہنچ سکنے کی وجہ سے پراجیکٹ توجہ سے محروم رہا۔ یوں یہ لاوارث منصوبہ براستہ شاہراہِ ریشم گلگت چلا گیا۔
حیرت و استعجاب حکومت کی ناانصافی پر ہی نہیں ہو رہی بلکہ چترال کی جملہ سیاسی جماعتوں کی بچگانہ سیاسی رویّے پر بھی ہو رہی ہے۔ جب پراجیکٹ ختم کیا جا رہا تھا تب چترال کے چھوٹے بڑے تمام سیاسی لیڈر غفلت کی چادر اوڑھے لمبی تان کر سو رہے تھے۔ چترال میں وجود رکھنے والی کسی بھی سیاسی پارٹی نے اسے بچانے کی سعی نہیں کی۔ ہم نے تین جنوری کو “گیس پلانٹ اور نااہل سیاسی قیادت” کے عنوان سے کالم لکھ کر سیاسی اور سماجی لیڈروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش ضرور کی لیکن سودمند نہ ہو سکی۔ ظاہر ہے نقارخانے میں طوطے کی کون سنتا ہے؟ جب اقتصادی کونسل اس پراجیکٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کر کے اس کے لئے خریدی گئی زمینیں بیچنے اور پلانٹس نیلام کرنے کا فیصلہ کر رہی تھی اُس وقت کسی بھی پارٹی نے اس پر درست ردعمل نہیں دیا۔اب جب پُل کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے تو حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والی پارٹیاں احتجاج کا چورن بیچنے کے لئے میدانِ عمل میں اُتر چکی ہیں۔ اسے کہتے ہیں سیاست برائے سیاست اور نِری سیاسی پوائنٹ اسکورنگ۔
مذکورہ گیس منصوبے کے روحِ رواں شہزادہ افتخار الدین کی طرف سے بھی عدالتی دروازہ کھٹکھٹانے میں تاخیر ناقابلِ فہم ہے۔ عدالت جانا بہت ضروری تھا لیکن اس وقت جایا جاتا تو بہتر ہوتا جب اسے منسوخ کرنے کا عمل چل رہا تھا۔ سانپ نکل جائے تو لکیر پیٹنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔ اللہ کرے تاخیر سے شروع کی جانے والی شہزادہ صاحب کی عدالتی جدوجہد اور سیاسی جماعتوں کی احتجاجی جدوجہد بارآور ہو اگرچہ سردست دور دور تک اِس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
سمجھ نہیں آ رہا کہ شجرکاری مہم پر کروڑوں خرچ کرنے والی حکومت پہلے سے موجود جنگلات کو بچانے میں سنجیدگی کیوں نہیں لے رہی؟؟ چترال میں گھریلو ایندھن کا سارا دارومدار جنگلات سے حاصل شدہ لکڑی پر ہے۔ متبادل کے طور پر سستی گیس فراہم کئے بغیر جنگلات کو بچانے کا خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ ہے۔
اربابِ اقتدار کو سوچنا چاہیے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور جنگلات کی کٹائی سے چترال آفات کے لئے ترنوالہ ثابت ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کو کم کرنے کے لئے شجرکاری مہم جتنا ضروری ہے اُس سے کہیں زیادہ ضروری پہلے سے موجود جنگلات کا تحفظ ہے۔ گھریلو استعمال کے لئے جنگلات کو عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ کر دس ارب نہیں، ایک ارب پودے بھی لگانے کے دعاوی کیے جائیں تو مضحکہ خیز ہی نہیں، ناقابلِ اعتبار بھی لگے گا۔۔۔ معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔