ترش و شیرین …ایک مڈل کلاس سیاسی ورکرکی سینٹ کے لئےنامزدگی۔… نثار احمد

سینٹ انتخابات کے لئے میدان سجنے میں صرف تین دن رہ گئے۔ کاغذات نامزدگی کی واپسی کا مرحلہ گزرنے کے بعد مختلف سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نہ صرف ہیوی ویٹ اُمیدوار  میدانِ مقابلہ میں رہ گئے ہیں بلکہ اپنی جیت یقینی بنانے کے لئے یہ امیدوار ہر ممکن جتن بھی کر رہے ہیں۔ بلا مقابلہ سینیٹرز منتخب کرنے کا فیصلہ کر کے پنجاب اسمبلی باقی اسمبلیوں پر فائق رہی ۔ اب مقابلہ باقی تین صوبوں بالخصوص قومی اسمبلی میں ہو گا۔ چونکہ سینٹ تک پہنچنے کے لئے انتخابی عمل اپنی بنت و ساخت میں انتہائی پیچیدہ سمجھا جاتا ہے اس لئے باقی صوبوں اور وفاق سے اپنے سینیٹرز ایوانِ بالا میں بھیجنے کے لئے ہر پارٹی کی کوشش ہے کہ نہ صرف اُس کے ممبران کی طرف سے کسی بھی قسم کی تکنیکی غلطی خارج از امکان ہو بلکہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر دوسری جماعتوں سے بھی مدد و تعاون بھی حاصل ہو سکے۔
سینٹ کے انتخابات میں براہِ راست عوام ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ممبران ووٹ ڈالتے ہیں اس لئے سینیٹر بننے کے لئے بڑی تعداد میں ممبرانِ اسمبلی کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں سینٹ کے لئے یا تو اُن پارٹی ورکرز کو ٹکٹ جاری کرتی ہیں جن کی پارٹی کے لئے قربانیاں تو ہوتی ہیں لیکن قومی اسمبلی تک رسائی ان کے بس میں نہیں ہوتی یا پھر اُن اہل ِ ثروت امیدواروں کو، جن کے پاس بہانے کے لئے کافی پیسہ ہوتا ہے۔  ثانی الذکر کٹیگری کے یہ امیدوار پارٹی خدمات کے بل بوتے پر نہیں، بلکہ پیسے کے زور پر اراکینِ اسمبلی سے ووٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پارٹی لیڈر کی طرف سے اسی ثانی الذکر کٹیگری والوں کو ٹکٹ ایشو کرنے پر سینیٹ انتخابات تنقید کی زد میں بھی رہتے ہیں۔ شکوہ کیا  جاتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز کے جذبات ایک طرف رکھ کر سینٹ کے لئے ایسے امیدواروں کو کیوں میدان میں اتارتی ہیں جو یا تو سرے سے پارٹی میں ہی نہیں ہوتے یا پھر اُنہیں پارٹی میں شامل ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں گزرے ہوتے ہیں۔ اِن پیراشوٹرز کو پارٹی قائد کی اے ٹی ایم بھی کہا جاتا ہے۔ انہی امیدواروں کی کارستانی سمجھئے کہ سینیٹ انتخابات ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے کافی بدنام  ہیں۔
 پیسے دے کر ایم پیز خریدنے کا قبیح عمل پہلے بلوچستان اور قبائلی اضلاع میں ہوتا تھا اب ماشاءاللہ وہاں سے دوسرے صوبوں میں بھی پھیل چکا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے سینٹ انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں صرف سات ایم پی ایز کی حامل پیپلز پارٹی نے دو سینیٹر نکال کر سب کو ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ جس صوبے میں جنرل نشست کے لئے کم از پندرہ سے بیس ووٹ درکار ہوں وہاں سات سیٹوں کے ساتھ دو سینیٹر منتخب کروانا بہت کچھ بتا رہا ہے۔ البتہ ایک نکتہ یہ بھی زہن میں رکھنا چاہیے کہ ارکانِ اسمبلی صرف پیسے لے کر ہی دوسری پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے  بلکہ اس کی اور بھی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ مثلاً دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں  جماعت اسلامی نے صرف سات سیٹوں کے ساتھ سینٹر مشتاق احمد خان کو سینٹ تک پہنچایا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے جماعت کی کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کامیاب سیاسی حکمت ِ عملی تھی۔ جماعت اسلامی کی طرف سے پیسے دے کر ووٹ خریدنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے یہ تاثر دینا بھی غلط ہے اِن کی سیاست میں وارد ہونے سے پہلے جتنے بھی سینیٹ الیکشنز ہوتے تھے اُن میں ووٹروں کی سخت خرید وفروخت ہوتی تھی۔ اب پی ٹی آئی کے طفیل خرید وفروخت والا باب بند ہونے جا رہا ہے۔  یوں کہنا زیادہ ٹھیک لگ رہا ہے کہ پارلیمانی سیاست میں پی ٹی آئی کی انٹری کے بعد خرید وفروخت کا عمل مزید قبولیت و وسعت پا چکا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ والے سینٹ انتخابات میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اراکین کا بڑی تعداد میں پیپلز پارٹی یا دیگر کو ووٹ دینا اور خان صاحب کا اُن کے خلاف  فوری ایکشن لینا اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ عمل بڑا ہے گھٹا نہیں۔ بہرحال خان کی ٹیم کی سیاسی خامیوں پر بات ہوتی رہے گی تاہم یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب کے سینے میں ایک صاف دل دھڑکتا ہے۔ اچھی بات اگر ان کی سمجھ میں آ جائے تو پھر اُس پر اسٹانس ہی نہیں لیتے بلکہ چٹان بن کر کھڑے بھی ہوتے ہیں۔ سینٹ انتخابات کو ہی دیکھ لیجئے کہ کسی بھی سیاسی پنڈت کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اس بار سینٹ کا کنفرم ٹکٹ کسی مڈل کلاس چترالی ورکر کو ملے گا کیونکہ پی ٹی آئی کو اب تک چترال میں قابلِ ذکر سیاسی کامیابی ملی بھی نہیں ہے پھر کس برتے سینٹ کا ٹکٹ چترال والوں کو پیش کیا جا سکے؟  تاہم ہونی کو کون انہونی کر سکتا ہے۔ ہما پرندہ جس کے سر بیٹھنا چاہیے پوچھ کر تو نہیں بیٹھتا۔ یوں چترال سے سینٹ کے لئے خان صاحب کا انتخاب فلک ناز چترالی ٹھہرا۔
 دو ہزار تیرہ میں پی ٹی آئی جوائن کرنے کے بعد چترال کے قریہ قریہ کی خواتین تک پی ٹی آئی کا پیغام پہنچانے والی فلک ناز چترالی کی خاص بات یہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی مڈل کلاس نظریاتی ورکر ہے۔ انہیں ٹکٹ بھی ایک عام نظریاتی ورکر ہونے کی بناء پر ملا ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتاہے کہ سیاسی جماعتوں میں نظریاتی ورکرز کو کوئی نہیں پوچھتا۔ جب انڈہ کھانے کی باری آتی ہے تو پارٹی کے لئے ڈنڈا کھانے والے محروم رہتے ہیں۔ فلک ناز چترالی کی سینٹ کے لئے نامزدگی اس عمومی روش کی نفی کر رہی ہے۔ خان صاحب کی طرف سے فلک ناز چترالی کو سینیٹ کا ٹکٹ دینا یہ بتا رہا ہے کہ پارٹی قائدین کی نظر میں عام نظریاتی ورکرز کی قدر و اہمیت اب بھی باقی ہے۔
پشاور یونیورسٹی سے ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ٹیچنگ سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنے والی فلک ناز چترالی مالاکنڈ ڈویژن سے واحد خاتون ہیں جو سینٹر بن کر خواتین کے لئے ایک مثال قائم کریں گی۔ نمبر گیم کا ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے امید یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران عمران خان کی خواہش اور پارٹی اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے فلک ناز چترالی کو کامیابی سے ہمکنار کریں گی۔ ہماری نیک تمنائیں  فلک ناز چترالی کے ساتھ ہیں۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔