دادبیداد…ماہرانہ رائے…ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

جدید ذرائع ابلا غ کی ایک عجیب اختراع ما ہرانہ رائے ہے عدالت میں کوئی مقدمہ ہو تو ما ہرین چار قسم کے امکا نا ت سامنے رکھتے ہیں ان میں سے ایک ہو جا تا ہے تو کہتے ہیں یہی میرا مطلب تھا، کرکٹ کاا ہم میچ ہورہا ہو تو ما ہرانہ رائے دینے والا کہتاہے کہ اگر بیٹنگ کرنے والوں نے زیا دہ رنز بنا ئے تو وہ جیت جائینگے اگر با لنگ کرنے والوں نے جلدی جلدی وکٹ لے لئے تو میچ ان کے ہاتھ آئے گا اب اس طرح کی رائے دینے کے لئے ما ہر ہونے کی چند اں کوئی ضرورت نہیں کوئی بھی عام شہری اس طرح کی قیا س ارائی کر سکتا ہے سینیٹ انتخا بات کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں عدالتی کاروائی ہو رہی تھی تو ہم آئینی ما ہرین کی ما ہرانہ اراء سے لطف اندوز ہورہے تھے اور جب فیصلہ آیا تو محتلف گروہوں کے مختلف الخیال تر جما نوں کی تر جما نی سے محظوظ ہو تے رہے صدارتی ریفرنس یہ تھا کہ سینیٹ کے انتخا بات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہو نے چا ہئیں یا ان انتخا بات کے لئے اعلا نیہ رائے کا طریقہ اختیار کیا جائے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو کر سرکاری وکلا اور اٹارنی جنرل نے اعلا نیہ رائے دہی کے حق میں دلا ئل دیئے عدالت نے بار بار پو چھا آئین میں کیا لکھا ہے؟ وکلا ء نے کہا آئین میں خفیہ رائے دہی کا طریقہ دیا گیا ہے حزب مخا لف کے وکلا ء نے عدالت کے سامنے خفیہ رائے دہی کے حق میں دلا ئل دیئے ما ہرین نے کما ل مہا رت سے کا م لیتے ہوئے چار امکا نا ت ہمارے سامنے رکھے سپریم کورٹ یا تو اعلا نیہ رائے دہی کے حق میں فیصلہ دے دیگی، یا خفیہ رائے دہی کے حق میں فیصلہ دے دے دے گی یا معا ملہ الیکشن کمیشن کے پا س بھیجے گی یا اس مسئلے پر فیصلہ کرنے کا اختیار پا رلیمنٹ کو دے دے گی ان میں سے جو بھی ہوا ما ہرانہ رائے دینے والا کہے گا ”یہی میرا مطلب تھا“ جب فیصلہ آیا تو ایک اور محا ذ کھل گیا فیصلہ خفیہ رائے دہی کے حق میں آیا عدالت عظمیٰ نے رائے دیدی کہ آئین کے دفعہ 226کے تحت خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹ کے انتخا بات ہونے چاہئیں اب ظا ہرہے ایک پارٹی جیت گئی دوسری پارٹی ہارگئی مگر تر جما نوں نے ایسی تر جما نی کی کہ سننے، دیکھنے اور پڑھنے والے عدالتی فیصلے کو بھو ل گئے جو پارٹی اعلا نیہ رائے دہی کے حق میں تھی جس کے وکلاء نے اعلا نیہ رائے دہی کے فضا ئل پر دلا ئل کے انبار لگا دیئے تھے اس پارٹی کے تر جما نوں نے بیانات دیے کہ خفیہ رائے دہی پر فیصلہ صادر کر کے سپریم کورٹ نے ہمارے موقف کی تا ئید کر دی ہے ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ سینیٹ کے انتخا بات آئین کے تحت صاف اور شفاف ہو نے چا ہئیں یہاں ”صاف و شفاف“ سے مراد خفیہ رائے دہی ہے فیصلہ آنے سے پہلے جن پارٹیوں نے سپریم کورٹ کے اندر اور عدالت سے باہر خفیہ رائے دہی کی حما یت کی تھی ان کے تر جما ن بھی یہی تر جما نی کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ہمارے مو قف کی تائید ہو ئی ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ چھا گیا ووٹ کا تقدس خفیہ رکھنے میں ہے چنا نچہ سپریم کورٹ نے خفیہ رائے دہی پر فیصلہ صادر کر کے ووٹ کے تقدس کو بحا ل کیا ہم جیسے لو گ جو پڑھنے، دیکھنے اور سننے والے ہیں اس پر حیراں ہیں کہ کس کی جیت ہو ئی ہے اور کون سپریم کورٹ میں شکست کھا گیا ہے اس ہاؤ ہو اور شور شرابے میں کوئی اُس آرڈنینس کی بات نہیں کرتا جو سینیٹ کے انتخا بات اعلا نیہ رائے دہی کے ذریعے کرنے کے لئے صدر مملکت نے نا فذ کیا تھا اُس مسودہ قانون کا ذکر بھی نہیں ہو رہا جو حکومت نے اعلا نیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹ کے انتخا بات کو یقینی بنا نے کے لئے آئینی تر میم کی غرض سے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا ہما رے دوست پر و فیسر شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ ہر انتخا بات کے مو قع پر پوسٹروں، بینروں اور پمفلٹوں میں لکھا جاتا ہے آپ کے قیمتی ووٹ کا حقدار فلا نہ خا ن ہے مگر ہم نے کبھی اپنے ووٹ کو قیمتی ہوتے نہیں دیکھا لے دے کے سینیٹ کا ووٹ رہ جا تا ہے جب ہمیں نظر آتا ہے کہ ووٹ واقعی بہت قیمتی چیز ہے اس کو سنبھا ل کر رکھنا چا ہئیے عام انتخا بات ہوں،ضمنی انتخا بات ہوں یا بلدیاتی انتخا بات ذرائع ابلا غ پر ”آذاد انہ اور منصفا نہ“ کا ذکر صاف و شفاف کے ساتھ بہت سننے اور پڑھنے میں آتا ہے اس کا عملی تجربہ سینیٹ کے انتخا بات میں ہوتا ہے اگر سینیٹ کے ووٹ نہ ہو تے تو ہمیں کیسے معلوم ہوتا کہ آزاد انہ اور منصفا نہ کسی چڑ یا کا نا م ہے چنا نچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں آئین کے آر ٹیکل 226کے تحت خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹ کے انتخا بات ہو رہے ہیں اور ہماری نیک تمنا ئیں قوم کے ساتھ ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔