مزید غلطی کی گنجائش ختم…محمد شریف شکیب

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ آٹا، مرغی کے گوشت، گھی اور کوکنگ آئی کی قیمتوں میں بیس فیصد تک اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کے اندر ٹماٹر20فیصد،آٹا25فیصد اورچکن15فیصد مہنگے ہوئے تاہم پیاز،لہسن،آلو،دال مونگ کی قیمتوں میں پانچ فیصد تک کمی آئی۔ حساس قیمتوں کے اعشاریہ کے لحاظ سے گزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں مہنگائی کی شرح15.35فیصدزیادہ رہی ہے۔ماہانہ17 ہزار 732روپے تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں 18.77فیصد، 22 ہزار 888روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں 16فیصد، 29 ہزار 517 روپے ماہانہ تک آمدنی رکھنے والے طبقے کیلئے مہنگائی کی شرح میں 14.91فیصد رہی۔ایک ہفتے کے دوران جن 22اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ان میں آٹا، انڈے، ٹماٹر، چینی، دال چنا، چاول اور چکن سمیت دیگر اشیائے ضروریہ شامل ہیں۔مہنگائی کا براہ راست منفی اثر کم آمدنی والے طبقے پر پڑتا ہے۔ پرکشش تنخواہ اور مراعات والے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے بڑے افسروں، تاجروں، کارخانہ داروں، جاگیر داروں اور حکمرانوں کے لئے مہنگائی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ موجودہ حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے مگر اس میں کمی لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی۔ اتوار بازار، جمعہ بازار یا منگل بازار لگانے سے غریب آدمی کو ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ ان سستے بازاروں سے نہ روٹی ملتی ہے نہ ہی دودھ، دہی اور دیگر روزمرہ ضرورت کی چیزیں سستی مل سکتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ سستے بازاروں اور اوپن مارکیٹ کی قیمتوں میں صرف انیس بیس کا فرق ہوتا ہے۔ پشاور میں حیات آباد فیز سیکس میں لگنے والے اتوار بازار سے اشیائے ضروریہ خریدنے شہر کا رہنے والا جائے گا تو قیمتوں میں جتنا ریلیف اسے ملے گا اس سے دس گنازیادہ آنے جانے کا کرایہ لگے گا۔ مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ جب تک ان بنیادی وجوہات کا تدارک نہیں کیا جاتا، مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دیگر تمام اقدامات محض نمائشی ہوں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں کے تعین کے لئے اوگرا اور نیپرا جیسے ادارے بناکر خود کو بری الذمہ قرار دیا ہے۔ ان اداروں نے قیمتوں میں ہفتہ وار بنیادوں پر ردوبدل شروع کردیا ہے۔ گذشتہ تین سالوں کے اندر تیل، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کم از کم تین سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرچیز کی قیمت میں اس عرصے میں پانچ سے دس گنااضافہ ہوا ہے۔ روزگار کے مواقع محدود ہوتے جارہے ہیں اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے جرائم کی شرح بھی بڑھتی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت اب تک ماضی کے حکمرانوں پر الزامات دھر کر اپنا وقت گذارتی رہی ہے۔اب اس چورن کی مدت استعمال ختم ہوچکی ہے۔لوگ اس چورن کو مزید قبول کرنے کو تیار نہیں۔ 2023کے انتخابات میں عوام کے پاس سرخرو ہوکر جانے کے لئے حکومت کو کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ حکومت کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے اپوزیشن بھی فرینڈلی مل گئی ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے غلغلہ اٹھتا ہے پھر سب کچھ جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ حکومت کے پاس کام نہ کرسکنے کا یہ جواز نہیں ہے کہ اپوزیشن نے اسے کام کرنے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے اپوزیشن میں شامل جماعتوں کو کئی عشروں تک ازمایا۔ ترقی پسند، رجعت پسند، میانہ رو، مذہبی رجحانات اور سیکولر نظریات رکھنے والی پارٹیوں کو بھی اقتدار میں لاکر دیکھ لیا۔ سب نے عوام کو مایوس کردیا۔ عمران خان پاکستان کے جمہوری نظام کا آخری آپشن ہے اگر پی ٹی آئی کی حکومت بھی ناکام ہوگئی تو اگلے انتخابات میں بیس فیصد لوگ بھی ووٹ دینے پولنگ اسٹیشن نہیں آئیں گے۔ اور سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کا جواز کھودیں گی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔