پس وپیش ۔۔۔  مغرب سے پہلے  ۔۔۔ اے۔ایم۔خان

گرمی کا موسم  پہلے شروع ہونا چاہیے تھا بہرحال اب جاری ہے۔ملک میں گرمی کا سیزن نسبتاً لمبی ہوتی ہے اور شمالی علاقہ جات سردی کی لپیٹ میں زیادہ رہ جاتی ہیں تو گرمی بھی اتنی زیادہ نہیں ہوتی وقتا فوقتا گرمی آجاتی ہے۔

ہماری زمین میں انسان اور نباتات گرمی سے اپنی طاقت لیتی ہیں۔ بڑھتے اور پکتے ہیں۔  سوائے اس افزائش کے جو سائے میں اپنی توانائی لے لیتی ہے۔ دراصل درسایہ بھی اُس نظام قدرت سے بہرہ ور ہوتی ہے۔

  رمضان میں کھانے پر دن کے وقت ذاتی پابندی، اور صبح سہری و افطاری میں کھانے پر، کی، اور کھانے پر توجہ ہو جاتی ہے اسی لئے بھی کہ سہری اور افطاری کا انتظام ہو نہ سکے۔ کھانے کے چیزوں پر  اگر دن کے وسط میں بات کی جائے فطرتاً کھانے کا اشتیاق ہو جاتی ہے اسی لئے بہتر ہے کہ اشتیاق [کھانے کی] کو بات میں شامل نہ کیا جائے۔

گرمی کا سیزن تو شروع ہے اور پھر رمضان آجائے تو  گرمی ہوجاتی ہے تو کچھ نہ کچھ  پک جاتا ہے۔ پکنے اور پکانے کا تعلق اندر اور باہر حدت سے مشروط ہے۔ اور اس سال بھی رمضان کی گرمی میں کئی ایک فصل تیار ہو رہے ہیں جسمیں ادب کی فصل پک جانے کے بعد دوبارہ پک رہی ہے۔ یعنی رمضان سے بھی گرمی ہے۔

یہ کون دیکھتا ہے گرمی کا سیزن ہے گرمی کی وجہ سے لوگ اپنے اپنے طریقے سے کام، فیصلہ اور قدم اُٹھاتے ہیں۔ درحقیقت ہم لوگوں کی پسند ناپسند پر قدغن نہیں لگاسکتے لیکن اُس روایت کو جسطرح کی گئی اس پر بات کرسکتے ہیں جو ہمارے تمدن کے خلاف ہے۔  گوکہ یہ پہلی مثل نہیں شادی مختلف ہوتے ہیں۔ اس پر یہ بات،  گوکہ بہت پہلے سے ہے، دوبارہ  سامنے آئی ہے کہ کوئی کام ہو جائے جس کو سند سے ثابت اور جائز کیا جائے۔

سند تو اب ہر ادارے سے دیا جاتا ہے، یہ نہیں معلوم  کہ سند یافتہ مستند ہے یا خود سند ۔ یہ نئی کہی بات تو نہیں کئی ایک عوامی نمائندے سند کی وجہ سے نااہل ہو گئے ہیں۔اُس مسلمان جنگجو ایوبی کی  اپنی مثال آپ ہے۔  فرد  اور اسکی ڈگری یا دونوں کو  مستند ہونے کو  یہ کونسا ادارہ ہوگا، کیونکہ فرد یہ نہیں کرسکتا،   جس پر مہر ثبت کردے مستند اور جائز  ہو جائیں۔ اور  اگر ہمیں بھی  بتا دیا جاتا تو عوام کیلئے سہل ہو جاتی۔  

مستند اور جائز سند کی سیاست وہ گہری کھائی ہے جس میں خود گرنے کا خطرہ ہے اور اس کھائی کے آرپار  اگر  دیکھا اور سوچا جائے تو ضرور پریشان ہوسکتے ہیں وہ لوگ جو اس بات پر اکتفا کر چُکے ہیں۔

 عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل  عدالت سے باہر ایک دور گاون میں کر دی جائے تو یہ  ایک فرد یا گروہ کا قانون  کو اور  اسکے مطابق عدالتی فیصلے کو چیلنج ہے۔ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کیلئے اب سند لانے کی ضرورت ہوگئی ہے اُن لوگون کیلئے بھی جن کے پاس قانونی اور آئینی سند موجود  تھا ۔

 کیا کیا جائے گرمی میں غور کرنے کی طاقت کمزور اور جنون زیادہ ہو جاتی ہے کیونکہ ہم گرمی اور سردی میں توازن کو متوازن نہیں رکھ سکتے۔  اس میں قوی امکان موجود ہے کہ جنون کا کردار،  قانون اور اسکی سمجھ کا فقدان،  سیکولرزم کے ہمارے ہاں رائج ترجمعے پر یقین،  دُنیا میں قوانین اور ملکی دستور جسکی اجازت دیتا ہے اس سے لاعلمی اس کا پیش خیمہ ہے

لوگ اس جنون کو جو بھی نام دیں اور جسطرح تشریح کرلیں لیکن میں اسے جنون اور کم علمی سے عبارت کرسکتا ہوں۔  

یہ جنون آج کی نہیں جو بہت پہلے سے چلی آرہی ہے۔ ایک زمانے سے،  اور اب بھی جاری ہے۔ دوسرے علاقے کی بات ہی کیا کریں ایک ‘گھاٹی’ میں ایک حکمران کو  اب بھی ایک عالم و مدبر نام سے نوازتے ہیں؟ ہندوستان میں اور پھر بعد میں فرنگی دور حکومت میں جو غدار بنے وہ عبارت اُس نے وہاں بھی استعمال کی ۔ اور یہ جنون کی ‘لہر’ ان گھاٹیوں سے مختلف شکل میں آئی اور گزر چُکے ہیں لیکن اثر یہاں تک موجود ہے جس کا اندازہ کالے اور بھورے رنگ کے چیونٹی میں رنگ ہے۔  

عقیدت سے ایک سوچ جنم پائی وہ اب سیاست میں بہت عام ہے۔

ایک تعریف کے مطابق سیاست کا مطلب جمہوریت ہے اور جمہوریت کا مقصد الیکشن۔ جو پہلے سے ہے،  اگر الیکشن ہونے کے بعد اطمینان نہ ہو تو یہ جائز نہیں۔ جائز ہونا یا نہ ہونے کی حد مغرب میں جنون سے نکل کر سیاست کا ایک فارمولہ ہے، اور ہندوستان [ ‘ہندو’  اور ‘ستان’] کے لوگ اس سے بریانی بنا لیتے ہیں جس میں سب کچھ شامل ہوتا ہے۔ اکانمسٹ اخبار کے مطابق بریانی تکثیریت کا استعارہ ہے  جو ‘ہندو’  اور ‘ستان’ میں جنون کا بھی ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ ہم صرف ہندوستان میں ہی جنون کو محدود نہیں کر سکتے جو مختلف شکل میں پوری دُنیا میں وقت کے ساتھ پکنے والی فصل ہے جس سے استفادہ ہوتا اور کرتے ہیں ۔بہرحال ہماری فصل نمایان ہے۔

اب سہ پہر کا وقت ہے مزید رمضان کے مہینے میں فصل ، پکنے  ، پکانے اور کھانے کی بات نہیں کرسکتا کیونکہ  ایک دن پہلے پشاور میں نسوار استعمال کرنےوالے  ایک فرد پر ایف۔آئی۔آر درج کر دی گئی ہے اور چترال میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ہے۔ نہ صرف نوٹیفکیشن کے مطابق  بلکہ قوم کے صاحب امتیاز میں اس نظام کیلئے شغف ہے جسمیں عوام  ایک ہی دروازے  سے داخل ہوکر دو سہولیات سے شرف حاصل کرسکے۔ جمہوریت میں انتظامیہ اور عدالت الگ  پیشہ ور لوگوں کو دینے سے انتظام تسلی بخش اور انصاف قانون کے مطابق ہوسکتا ہے۔

مغرب سے پہلے کی تحریر ایسی ہوتی ہے  کیونکہ رمضان کے مہینے میں ہم صبح سے مغرب تک ہر بات کہہ اور لکھ نہیں سکتے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔