نرسز کا عالمی دن …نرسز کا عالمی دن پاکستانی نرسز اور مریضوں کے مسائل… تحریر: ناصر علی شاہ

شعبہ نرسنگ نظام ہیلتھ کے اندر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے نرسنگ پروفیش, ہسپتال, ڈاکٹرز اور ہیلتھ ملازمیں کے مابیں پل کا کردار ادا کرتی ہے جس کی بدولت مریضون کی تسلی بخش علاج کی فراہمی ممکن ہوتا ہے چونکہ آج نرسز کا عالمی دن پاکستان سمیت پوری دنیا میں منایا جاتا ہے کیونکہ اس دن فلورنس نائٹ اینگل نے جدید نرسنگ کی بنیاد رکھ کر پوری دنیا میں مریضوں کی خدمت کی وجہ سے نرسنگ پیشے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا اور آج نرسنگ پروفیش ایک عظیم شعبہ بن کر ابھر چکا ہے.

اس عظیم و مقدس پیشے کا حصہ بن کر ایک پروفیشنل بہترین انداز میں دکھی انسانیت کی خدمت کو اپنے زندگی کا مقصد بناتے ہوئے نیک نیتی اور خلوص دل سے بہترین مہارت کیساتھ مریضوں کا خیال رکھنے کے لئے پیش پیش ہیں ملک میں کوئی ناگہانی آفات ہو یا کورونا وبا, نرسز صف اول کا کردار ادا کرتے ہوئے سروسز مہیا کر رہے ہیں نرسز کی بہترین خدمات کورونا وبا میں کرکردگی کے بعد سامنے آیا جو لوگ نرسز پروفیشن کے مخالف تھے وہ بھی داد دیئے بنا نہ رہ سکے اور نرسز کی بہترین خدمات کو صراہنے پر مجبور ہوگئے.
نرسنگ کا پیشہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جدید دنیا میں اس پیشے کی اہمیت و عزت کو دیکھتے ہوئے مریضوں کی صحت کو اولیں ترجیح دیکر اس پیشے کے اوپر زبردست کام کرکے الگ نظام قائم کیا جاچکا ہے پروفیشن کی ترقی میں کارہائے نمایاں ریسرچیز ہو چکے ہیں نرسز کے لئے بہترین یونیورسٹیاں, علیحدہ ڈائیریکٹوریٹ, ریسرچ سینٹرز تک بنائے جاچکے ہیں. عالمی ادارہ صحت کے قوانین پر مکمل عمل پیرا ہوکر غیر متعلقہ لوگوں کی غیر ضروری مداخلت بند کر پیشے کی افادیت پہچان چکے ہیں پروفیشنلز کے ہاتھ باندھنے کے بجائے ان سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے.
پاکستان میں نرسز کے مسائل.

تاریخ کا بغور مطالعہ کرنے سے نرسنگ پیشے کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اس معزز پیشے کی ابتدا بھی رسول اکرام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہوئی ہے کئی لوگ بطور نرسز جنگوں میں حصہ لیکر زخمیوں کی مرہم پٹی اور علاج کر چکے ہیں ہونا یہ چاہئے تھا کہ مسلمان اس عظیم پیشے کو مزید نکھارتے مگر خدمت کے پیشے کو بھی انگریزوں نے نکھارا اور باوقار پیشہ بنایا.
پاکستان میں آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی جہاں بین الاقوامی ضوابط کے مطابق پرکٹیکل اور ایجوکیش مہیا کی جارہی ہے. ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر صوبے میں نرسنگ یونیورسٹی بنائے جاتے, نرسنگ پیشے کی تعمیر و ترقی کے لئے کام کرتے مگر افسوس اس پیشے کو فروغ دینے اور حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کیا جاتا رہا ہے پاکستان میں آبادی بڑھتی جارہی ہے ناقص پالیسوں کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہاسپتالوں میں لاکھوں کی نرسز کی کمی کا سامنا ہے عالمی ادارہ صحت کے مطابق چلنے کے بجائے اپنا نظام بنا کر چل رہے ہیں جس کی وجہ مریضوں کو ان کے حقوق کے مطابق علاج میسر نہیں.
نرسز بے تحاشہ مسائل سے دوچار ہیں ملک میں نرسنگ پروفیش کو تسلیم کرنے کے لئے کوئی تیار نہیں. ان کی محدود سوچ کہ نرسز اگر با اختیار ہوگئے تو دوسروں سے لوگوں کا اعتماد کم ہوگا علیحدہ نظام کی صورت میں ان کی مداخلت ختم ہوگی مگر ان کو یہ نظر نہیں آتا ہے کہ مریضوں کو فائدہ کتنا ہوگا ہیلتھ نظام میں شاندار تبدیلی ائیگی. نرسز کے مسائل زیادہ ہیں مگر کچھ منظور نظر رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ ان مسائل کا بلواسط تعلق مریضوں سے ہے.
1. تمام نرسز کو جدید تعلیم میسر نہیں, سٹنڈرڈ کالج نہ ہونے کی وجہ سے نرسنگ ایجوکیش, کلینکل پریکٹس متاثر ہو چکا ہے جدیدیت کو دیکھنے ہوئے جدید نظام تعلیم کو عام کرنے کے لئے پاکستان کے ہر صوبہ میں جدید یونیورسٹیز بنانا چاہئے تاکہ بدلتی حالات کے مطابق ٹریننگ ہو اور مریضوں کو ایڈوانس علاج میسر ہوسکے.
.2 نرسنگ کے لئے علیحدہ ڈائیریکٹوریٹ اور ریسرچ سنٹر بنانا چاہئے تاکہ نرسنگ معاملات کے اوپر ریسرچ ہو اور ریسرچ کی بنیادوں پر نرسنگ کیئر مہیا کیا جا سکے
3. ہاسپتالوں میں نرسنگ ڈائیریکٹرز تعینات کرکے با اختیار بنانا چاہئے غیر ضروری مداخلت بند کرکے نرسنگ کے معاملات نرسنگ کے اوپر چھوڑنا چاہئے.
4. ڈسٹرکٹ ہلتھ افیسرز آفیسز میں نرسنگ کا نمائندہ نہ ہونے کی وجہ سے نرسز کو بے تحاشا مسائل درپش ہوتے ہیں جن کی وجہ سے مریضوں کو تکلیف اٹھانا پڑتا ہے, کمیونٹی آگاہی مہم بلکل نہیں دی جاتی, حکومت کو اب پیشہ اور اس کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے نرسنگ کا نمائندہ تعینات کرنا چاہئے
6. پرائمری, سیکنڈری اور ٹرشیری ہاسپتالوں کے اندر نرسنگ ایجوکیش سروس کھولنا چاہئے تاکہ نرسز ترقی یافتہ ممالک کی طرز تعلیم روانی سے حاصل کرسکے, جدید ٹریننگ مل سکے کیونکہ اس کا فائدہ مریضوں کو ہی ملے گا. کئی سینئر نرسز ہیں جو ٹریننگ کے بعد ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں مگر کسی نے ان سے جدید ٹریننگ نہیں کروائی, کم علمی اور پروفیشن کو حقیر سمجھنے کی وجہ سے زیادہ تر نرسز جدید علم سے ناواقف ہیں اور اس کا نقصان مریضوں کو ہورہا ہے.
7. نرسز کو محدود پریکٹس کی اجازت دیکر پرائمری ہیلتھ کیئر نرسز کے حوالہ کرنا چاہئے تاکہ بیماری شروع سے پہلے کنٹرول کیا جاسکے جس کی بدولت ٹرشیری کیئر ہاسپتالوں کے اوپر بوجھ کم ہوگا اور سب کو مناسب کیئر بھی ملنا ممکن ہوگا.
8. نرسز کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے آئی سی یو کے اندر 5 وینٹی لیٹر کے اوپر پڑے مریضوں کی جبکہ وارڈ میں ایک نرس 45 مریضوں کا زمہ دار ہوتا ہے جو نہ صرف نرس کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ مریضوں کے ساتھ بھی ظلم ہے. وینٹی لیٹر پر پڑی مریض جو زندگی اور موت کے کشمکش میں ہوتا ہے اس کا ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے ہر سیکنڈ دل کی رفتار, آکسیجن کا اتار چڑاؤ, خوں کے اندر گیسز چیک کرکے وینٹی لیٹر پیرامیٹرز کی تبدیلی, بلڈ پریشر کی اتار چڑاو کی دوائیاں پریشر کے مطابق چلانا, ہوا کی نالی کی روانی بحال رکھنا, زخم سے بچانے کے لئے ہر دو گھنٹے بعد پوزیشن تبدیل کرنا وغیرہ شامل ہیں جو ایک نرس مشکل سے پورا کرتا ہے مگر کئی مریضوں کو ایک نرس سنبھال رہا ہے جو نامناسب ہے اور کیئر بھی متاثر ہوتا ہے چالیس سے پنتالیس مریضوں کو جو ایک نرس کی زمہ داری میں ہوتی ہیں دوائیاں تو لگینگے مگر وہ علاج نہیں ملے گا جو مریض حق رکھتا ہے. ان تمام صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہنگامی بنیادوں کے اوپر کم سے کم 10 ہزار نرسز بھرتی کرنا چاہئے.
8. دیہاڑی سسٹم شروع کرکے نرسنگ پروفیش کی عزت مجروح کی جارہی ہے جہاں نرسنگ پروفیش کی اہمیت دن بہ دن بڑھ رہی ہے وہاں کئی عناصر جو اس پیشے کی ترقی کے خائف ہیں نرس کو مزدور کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں
نرسنگ جو باوقار پیشہ ہے مگر حقیر سمجھ کر, اختیارات اپنے پاس رکھنے کی وجہ سے, پیشے کی ترقی ممکن نہیں, اب دنیا بدل چکی ہے اور بدلتی دنیا کیساتھ اپنی سوچ بدلنا ہوگی اور دوسروں کا سوچ شروع کرکے پیشے کی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہوگی کیونکہ لوگ صحت مند ہونگے تو پاکستان ترقی کریگا بیماریوں پر قابو پانے کے لئے نرسنگ پروفیش کو اہمیت دینا وقت کا تقاضا اور اہم ضرورت ہے

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔