مشرق وسطیٰ کا المیہ…محمد شریف شکیب

اسرائیل کی طرف سے رمضان المبارک کے دوران مسلمانوں کے قبلہ اول پر حملے کے خلاف پورے عالم اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اسرائیل نے غزہ کے علاقے میں ڈیڑھ سو مرتبہ بمباری کی ہے۔ سینکڑوں مکانات، سکولوں اور فیکٹریوں پر بم گرائے اب تک دس بچوں سمیت درجنوں فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے عالمی برادری سے فلسطینی عوام کے تحفظ کے لئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اوراسرائیلی حملوں کو بنیادی انسانی حقوق اور مذہبی اخلاقیات کے منافی قرار دیا ہے۔ او آئی سی اجلاس میں اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف مشترکہ موقف اختیار کرنے سے متعلق پاکستانی تجویز بھی منظور کی گئی ہے۔ دریں اثناء مسجد اقصی پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کیلئے ترکی کی میزبانی میں ہنگامی ورچوئل کانفرنس ہوئی۔جس میں فلسطین، پاکستان، افغانستان، اندونیشیااور ایران سمیت60 ممالک کے 100 سے زائد مندوبین نے شرکت کی کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل مسئلہ فلسطین اور القدس پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف عملی اقدامات کرے۔ مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے کہا کہ پاکستان بطورریاست اور بطور حکومت فلسطینی قوم کے ساتھ اپنا اخلاقی، سیاسی اور سفارتی تعاون و حمایت جاری رکھے گا۔ مسجد اقصی کی بیحرمتی اور نہتے فلسطینیوں پر انسانیت سوز مظالم ناقابل قبول ہیں۔ مسجد اقصی کی بیحرمتی اور بربریت کے واقعات کسی ایک مذہب یا قوم کی خلاف نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔ عالم اسلام کا القدس کے ساتھ دینی، قلبی اور روحانی تعلق ہے۔قبلہ اول میں جمعۃ الوداع کے موقع پراسرائیل فوج کی طرف سے نمازیوں پر تشدد اور مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کی کوشش یہودی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے والے عرب ملکوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف دانشمندانہ ہے کہ جارحیت کی مذمت کرنا کافی نہیں۔ تمام اسلامی ملکوں کو فلسطین، کشمیر اور روہنگیا سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف مشترکہ آواز اٹھانی چاہئے۔ اور اگر مقدور ہو تو زور بازو سے جارحیت کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آج مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق اور یک جہتی کی جتنی ضرورت ہے شاید اس سے پہلے اس کی اتنی ضرورت نہ رہی ہو۔ 1970 کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کو لاہور میں جمع کرکے عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد کے علم برداروں کے ساتھ امریکہ اور اس کے حواریوں نے کیا سلوک کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، عیدی امین، رضاشاہ پہلوی، معمر قذافی، یاسر عرفات، حواری بومدین اور انورسادات کو نہ صرف اقتدار سے محروم کردیا گیا بلکہ ان میں سے کسی کو مروا دیا گیا کسی کو جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔ آج عالم اسلام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر، برما، افغانستان، عراق، فلسطین، بوسنیا اور وسطی ایشیائی اسلامی ریاستوں میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا سلوک کیا جارہا ہے۔ اور اسلامی ممالک ان واقعات کی مذمت سے ایک انچ آگے نہیں بڑھتے۔ اکثر اسلامی ممالک فرقے، مسلک، قومیت، زبان اور نسلی تعصبات کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔قبلہ اول پر حملے کے بعد مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہئے۔ اگر آج بھی ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو ہمارا مستقبل غیر یقینی ہوگا۔ سو سال پہلے شاعر مشرق نے مسلمانان ہند کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ”نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو۔تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔