دھڑکنوں کی زبان….”میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان ہے“…محمد جاوید حیات

کسی بھی ملک کی پہچان اس کے باسیوں سے ہوتی ہے۔۔یہ باشندے ملک کا حوالہ ہوتے ہیں اور ہر باشندہ اس ملک کا تعارف اور سفیر ہوتا ہے۔۔سفیر کا کام نمایندگی ہے نمایندگی اچھائی کا نام ہے ورنہ ٹایٹل ہی ڈیلیٹ ہوجاتا ہے۔۔ہم اگر لاکھ انکار بھی کریں تب بھی ہم پاکستانی ہیں برُے ہیں،بھلے ہیں تب بھی اس ملک کا باشندہ ہیں۔ہمارا فرض ہے کہ اس دھرتی کی حفاظت ترقی اور خوشحالی کے لیے تگ و دو کریں۔اگر ہم اس میں ناکام ہیں تو یہ قصور دھرتی کا نہیں ہمارا ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برُا بھلا کہتے رہے ہیں۔۔ حکمران غلط کر رہا ہے تو رعایا پر فرض ہے کہ اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔۔اس کو ماننے والے آنکھیں بند کر کے ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں اور نہ ماننے والے ان کو کہیں کا نہیں چھوڑتے۔اگر ہم ساتھ دیں تو ہر مسلے کا حل موجود ہے۔دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا واحد راز یہ ہے کہ اس کے باشندے پرخلوص اور کرپشن سے پاک ہوں۔ خلیفہ رسول صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد چند جملوں میں دنیا کے حکمرانوں کو حکمرانی کا ایک ایسا فارمولا دیا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔۔یہ قانون کی حکمرانی کا چارٹر ہے۔۔۔”لوگو! مجھے تم پر حکمران بنایا گیا ہے اگر اللہ اور رسول کا اتباع کروں تو میری تابعداری کرنا ورنہ تم پر میرا اتباع لازم نہیں “۔ٹھیک ہے ہمارے ملک میں آئین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا نہیں ہم نے خود آئین بنائے لیکن اس کا بھی اتباع نہیں ہوتا۔۔ہمارے حکمران اپنے پہلے خطاب میں کہدے لوگو! اگر میں آئین اور قانون کا اتباع نہ کروں تو میرا اتباع نہ کرنا۔اور پھر اس کا ثبوت بھی دے تو قانون کی حکمرانی خود ہوگی۔شاید ہمارے آئین میں سب کے فرائض ذمہ داریاں واضح ہیں لیکن ہمارے پاس مثال نہیں کہ کوئی اپنی حد میں ہے۔تجربہ ہے کہ آئین قانون عدلیہ انتظامیہ اسی حکمران کی مرضی پر ہوتا ہے اور قانون درمیان سے غائب ہوتا ہے اس لیے یہ ساری پیچیدگیاں آڑے آتی ہیں۔کسی حکمران کے جانے کے بعد ہی ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس نے کیسے گل کھلائے ہیں۔ اس وجہ سے عام باشندے اس آزاد دھرتی کے ساتھ شکر کرنے کی بجائے اس کو برُا بھلا کہتے ہیں۔کبھی کبھی کسی دوسرے ملک کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ پاکستان سے روس امریکہ ہندوستان اچھا ہے ان ناعاقبت اندیشوں سے شکوہ بھی نہیں کیونکہ انھوں نے مجبوری نہیں دیکھی۔ان کو اپنی تاریخ کا پتہ نہیں کہ برصغیر میں ان کے ابا و اجداد نے جو ظلم و بربریت دیکھی اس کی تلخی ان کو پتہ نہیں۔۔ان کو اندازہ نہیں کہ عراق شام افغانستان فلسطین کشمیر چیچنیا بوسنیا برما وغیرہ میں انسانیت پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے اس کا یہ ادراک نہیں کر سکتے۔۔ان کو کیا پتہ ہے کہ جب ملک کی سرحدوں میں خطرے کی گھنٹی بجتی ہے تو ان کے محافظوں پہ کیا گزرتا ہے وہ ساری ساری رات بندوق آٹھائے مادر وطن کی حفاظت میں جاگ رہے ہوتے ہیں یہ تنقید کرنے والے آرام سے سویے ہوئے ہوتے ہیں۔۔یہ حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو ان کی زبانیں کاٹی جاتیں۔ وہ اپنی ڈیوٹیاں کماحقہ ادا نہیں کرتے کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو بھیگ مانگنے پر مجبور ہوتے۔وہ کھلے عام چوری ڈکیتی کرتے ہیں کسی دوسرے ملک میں ہوتے تو وہ اپنے ہاتھوں سے محروم ہوچکے ہوتے لیکن وہ پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں۔۔ان کی نا اہلی کا قصوروار یہ پاک دھرتی نہیں ہم خود ہیں۔یہ شہر اپنا وجود رکھتا ہے ہم نے اس کو شہر ناپرسان بنا رکھا ہے اس کی خوبصورتی کا اندازہ نہیں ہم نے اس کو بد صورت بنا رکھا ہے یہ قدرتی دولت سے مالا مال ہے ہم نے چیر پھاڑ کھا کے اس کو کھنگال کر دیا ہے۔۔سوال ہے کہ یہاں کا پیسہ باہر کیوں جائے یہاں کے گیس بجلی کو کس کی نظر لگے یہاں کی چینی کیوں چوری ہو۔۔یہاں کے دریا کا پانی بے ثمر کیوں ہو۔یہاں کا آفیسر کرپشن کیوں کرے۔یہاں کا سیاستدان ناعاقبت اندیش کیوں ہو۔بحیثیت قوم یہ سب ہمارے لیے سوالیہ نشان ہیں۔جب تک ہم اپنے محافظوں کے دست و بازو نہ بنیں وہ ہمارا دفاع نہیں کر سکیں گے جب تک ہمارے سیاست دان صادق و امین نہیں ہونگے وہ ہمیں خوشحالی نہیں دے سکیں گے۔جب تک قانون دان قانون کی دھجیاں اُڑاتے رہیں گے کسی کو انصاف نہیں ملے گا۔۔جب تک ہماری آفسر شاہی کو اپنے فرائض سے غفلت ہوگی ملک کا نظام نہیں چلے گا۔۔سب کو اس دھرتی سے محبت ہونی چاہیے بے لوث اور بے مثال محبت۔۔ایسی محبت جو زندہ قوموں میں ہوتی ہے۔۔ہمارے وزیر اعظم قانون کی بالادستی کی بات کر رہا ہے تو مجھے بھی وزیر اعظم پہ پیار آتا ہے اکیلا بندہ کیا کرے ہم سب کو ایسا کچھ کرنا چاہیے جتنی محبت وزیر اعظم کو پاکستان سے ہو اتنی ہمیں بھی ہونی چاہیے بلکہ وزیر اعظم کو ہم سے سو گنا زیادہ محبت ہونی چاہیے۔۔اس دھرتی سے محبت کا حوالہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے محافظوں اپنے حکمرانوں اور اپنے ہم وطنوں سے ہونی چاہیے۔اللہ ہمارے پاکستان کو قائم و دائم رکھے۔۔۔۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔