ڈی ایچ او افس کے اندر نرسز کا نمائندہ ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔۔۔حکومت نوٹس لیں۔۔۔۔تحریر: ناصرعلی شاہ

نرسنگ کا پیشہ اپنی پیشہ ورانہ مہارتوں کی بدولت انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس پیشہ میں دکھی انسانیت کی خدمت کو عبادت سمجھ کر اولین ترجیح دی جاتی ہے پروفیشنلز کو ڈیوٹی اور خدمت میں فرق اچھی طرح سیکھائی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ رب کریم کے بندے کی خدمت کس طریقے سے ہونی چاہئے.کورونا ہو یا کوئی ناگہانی آفت نرسز ہمیشہ فرنٹ لائن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں. دنیا بھر میں نرسنگ پروفیش کا ایک الگ مقام ہے جس کی بدولت مریضوں کو سہولیات ملتی ہیں جبکہ پاکستان میں خود ساختہ نظام ہونے کی وجہ نہ صرف اس عظیم پیشے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ پروفیشنلز کی بھی تذلیل کی جاتی ہے.
نرسنگ کا پیشہ 600 ہجری سے ہی جانا پہچانا جاتا ہے اور نائٹ اینگل نے جدید نرسنگ کی بنیاد رکھ کر پوری دنیا میں تعارف کروایا اور جدید دنیا کے نرسز کا الگ نظام و وقار قائم ہوگیا مگر افسوس پاکستان میں اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگ اہمیت جانتے ہوئے اشکار کروانے سے کتراتے ہیں جس کا منفی اثر مریض پر پڑتا ہے اور وہ علاج نہیں ملتا جس کا مریض مستحق ہے.
ڈسٹرکٹ ہلتھ افیسر کے ماتحت کئی تحصیل ھیڈ کوارٹر ہسپتال ہوتے ہیں اور ان ہاسپتالوں میں کافی تعداد میں نرسز خدمت پر معمور ہیں اور محدود وسائل کے باوجود انتہائی ایمانداری اور جانفشانی سے مریضوں کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے..
اب خاص موضوع کی طرف آتے ہیں جو وقت کا تقاضا بھی ہے اور پیشہ کی ضرورت بھی. جیسا میں نے پہلے بیان کی کہ نرسنگ کا پیشہ مخصوص مہارت کے ساتھ ایک علیحدہ پروفیشن ہے یہ عالمی ادارہ صحت کا بیانیہ ہے اگر ایسا ہے تو پاکستان میں بھی اس پیشے کی تعمیر و ترقی کے لئے سنجیدہ اقدام کی ضرورت ہے کچھ مسئلہ مسائل کو احتجاج کرکے باور کرانے سے حکومت تسلیم کرچکی ہے جو کہ خوش آئیند ہے مگر یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور یہ حل ہونے سے بلا واسطہ حکومت کی ہی نیک نامی ہے.

ڈسٹرکٹ ہلتھ آفیس میں نرسنگ نمائندہ کا ہونا وقت کا تقاضا ہے نرسنگ پروفیش کو آگے لائے بغیر مریض کو حقیقی معنوں میں علاج فراہم کرنا محال ہے نرسنگ نمائندہ کے ہونے سے نرسز کے لئے ورکشاپ, کمیونٹی آگاہی کیمپ, اور خاص کر فنڈ کی درست جگہ استعمال کا صحیح سمت متعین کرنے میں آسانی ممکن ہے.
ڈی ایچ او آفس میں نرسز نمائندہ نہ ہونے کی وجہ نرسز تکلیف و مشکلات سے دوچار ہیں چونکہ زیادہ تر فیمل نرسز ڈی ایچ او کے ماتحت ان علاقوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن کو آئے دن مشکلات درپیش ہوتی ہیں اور انتہائی بے ادبی کیساتھ ان کو ٹریٹ کیا جاتا ہے. کئی ایسے کام ہوتے ہیں جن سے ڈی ایچ او بے خبر ہوتا ہے کیونکہ ایک شخص کس کس کام کو دیکھے گا ان تمام وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ڈسٹرکٹ آفیسر آفیس میں نرسنگ نمائندہ جو ماسٹر یا سنیئر بی ایس ڈگری ہولڈر ہو کو تعینات کیا جائے تاکہ نرسز کے مسائل حل ہو اور مریضوں کی علاج معالج میں بہتری ہو.

حکومت خصوصاً ہیلتھ منسٹر سے پرزور گزارش ہے کہ بطور چیف نرسنگ آفیسر کسی بھی ڈی ایچ او افس میں مقرر کریں تاکہ ضروریات کے مطابق سٹافوں کی فراہمی, نرسنگ پروفیش سے منسلک پروفیشنلز کے مسئلے مسائل آسانی سے حل ہو اور ڈی ایچ او کا وقت ضائع کئے بیغر ہاسپتالوں میں مریضوں کو بہترین نرسنگ کیئر کی فراہمی میں مدد ملے گا

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔