نیا نظام انصاف..تحریر:محمدکوثر ایڈوکیٹ

وزیراعلی نےتمام صوبائی محکمہ جات کےساتھ خصوصی میٹنگ کرکےبہت سے اھم احکامات صادر کیےھیں۔بہت سو سے اختلاف کیاجاسکتاھےمگر ایک اھم بات جو نظرون سے گذری وہ ھے DRA کا نظام جوکہ بروقت خانگی یا خاندانی و مقامی جھگڑون کاتصفیہ۔

وزیراعلی صاحب نے اس نظام کو فعال بنانےکی ھدایت کی ھے۔
بات بےبات مخالفت درست نہیں اس لیےسیاسی تنقید کو الگ رکھتےھویےاگرحقیقت پسندانہ طور پر دیکھین تو یہ ایک حقیقت ھےکہ ھم لاکھ وزیراعلی یا حکومت کو سلیکٹڈ کہیں یا کچھ اور مگر یہ حکم نامہ ھر خاص و عام و ھرسیاسی کارکن بلکہ سب پر لاگو ھوچکاھے لہذا کچھ اس ٹاپیک پر میں اپنا “بقراطیانہ” موقف پیش کرناچاھونگا۔
بعض دفعہ دیوانےبھی پتے کی بات کرتے ھیں ۔ اگر موجودہ صوبائی حکومت حقیقتا اپنی پارٹی کا اصل بیانیہ نافذ کرنےمیں سنجیدہ اور بااختیارھے تو اندر ایک ماہ بہت بڑی تبدیلی اس صوبےمیں لاسکتی ھے۔
یہی DRA یعنی Dispute Resolution Alternate میں چند نقایص کو نکال کے فیصلہ سازی اور بروقت نافذلعمل یعنی implement بھی کرنےکا انتظامی اختیار بھی سونپ دے اور ساتھ ساتھ اس عدالت کو پابند کرے کہ اندر ایک ماہ ھرقسم کے مقدمات کو نپٹاناھے تو یہ بہت بڑی تبدیلی ھوگی۔
البتہ انصاف کےتقاضون کو پورا کرنےکےلیے چند اقدامات اٹھانےھونگے۔

1: اسی DRA کو مکمل عدالتی اختیارات حاصل ھو جبکہ موجودہ عدالتین Revenu .,Criminalوغیرہ مقدمات تک محدود ھوں۔

2:اسی DRA کےجیوری یا ممبران پر کسی بھی قسم کی مالی یا سیاسی وغیرہ قسم کادباو نہ ھو۔

3:اس کےلیے مظبوط ACR جسے نچلی سطح کےتعاون سے مرتب کیاجایے ساتھ کسی قسم کی بدعنوانی پر جیوری ممبران کو سخت سزا کا قانون بھی ھو۔سزا بھی ایسی کہ کسی ایک ممبر کی غلطی کی سزا سارے ممبران کےلیے مقرر ھو۔

4:انصاف کےوہ تمام تقاضےجو قانون شہادت میں درج ھیں پورےکیےجانی چاھیے۔

5:جیوری کےفیصلےکےخلاف ایک اپیل کا حق ھو جس کو ڈسٹرکٹ سیشن جج سماعت کرےاور فیصلےمیں کوئی سقم پایےتو جیوری کو ریمانڈ کرے ازین بعد جیوری جو فیصلہ دے اس پر مزید اپیل نہ ھو اور متذکرہ فیصلے پر اندر ایک ماہ ڈنڈےکی زور پرعملدرامد بھی ھو۔
دراصل سایل انصاف اس لیےمانگتاھے کہ دیانت داری سے بروقت درست فیصلہ ھی نہ ھو بلکہ اس کی دادرسی کےلیے بروقت فیصلےپرعملدرامد بھی ھو۔ عام نظام میں اجراء کے معاملےمیں لوگ لٹ جاتےھین پرھوتاکچھ نہیں۔ کم ازکم موجودہ DRA میں یہ نہ ھو۔

6: اس جیوری میں انتظامیہ ھی کےافراد کا ھونا درست نہ ھے بلکہ ایک جج جوکہ کم ازکم سنیرسول جج جتنا تجربہ کار ھو ایک ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ھو اس کےعلاوہ پانچ جیوری کےممبران میں دو سنیر وکلاء باقی قابل اعتماد بےداغ اور خوشحال باعزت معتبرات پر مشتمل ھو۔
انتظامیہ کی طرف سے صرف ایک وہ بھی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سےمیری مراد یہ ھےکہ ڈی سی اےسی وغیرہ انتظامی امور کی وجہ سے عدالتی امور کی طرف توجہ نہیں دےپاتے اور سابقہ فاٹا اور پاٹا کا تجربہ سامنےھے کہ جس میں سالون کیس لٹکےرھتےتھےکہ صاب بہادر دفتری امور میں مشغول میشود۔ اس لیے ADCچنکہ سنجیدہ عمر اور عدالتی طور پر جیوری کےفیصلےکوبھی نافذ کرنےکا اختیار رکھتاھے اور سابقہ مجسٹریسی نظام میں بھی عدالتی امور نپٹاتاتھا اس لیے ADC کسی بھی نوعمر افسر سےذیادہ بردبار ھوتاھے۔

قارئین ! اگر یہ نظام اپنےاصل روح میں نافذالعمل ھوا تو یقین جانیے ھمارے معاشرے کے 75%مسایل اسی سے حل ھونگےاور ایک سال کےاندر صوبےمیں انقلاب آئے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔