چترال،احتیاطی تدابیر برائے سیاحت کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ وکشاپ کی اختتامی تقریب

چترال ( محکم الدین ) ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ٹورزم سروسز خیبر پختونخوا غلام سعید نے کہا ہے ۔ کہ چترال سیاحوں کی جنت ہے ۔ جہاں قدرتی نظاروں کے ساتھ قدیم تہذیب و ثقافت مثالی امن کے ماحول میں دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ کویڈ 19 کی وجہ سے طویل عرصہ سیاحت بند رہنے کے بعد حکومت نے ایک مرتبہ پھر احتیاطی تدابیر کے ساتھ اسے کھول دیا ہے ۔ جن پر عمل کرتے ہوئے سیاحتی سٹیک ہولڈرز فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گذشتہ روز چترال کے ایک مقامی ہوٹل میں احتیاطی تدابیر برائے سیاحت کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ وکشاپ کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر ایم ڈی ٹورزم محمد علی سید بھی موجود تھے۔ جبکہ چترال ٹورزم ایسوسی ایشن کی کابینہ اور ممبران کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ موجودہ حکومت نے سیاحت کی ترقی کیلئے جن اقدامات کا آغاز کیا تھا ۔ ان کے تحت 2025 تک ایک کھرب روپے سیاحتی آمدنی کا تخمینہ لگایا گیا تھا ۔ لیکن کویڈ 19 کی وجہ سے اس کو زبردست دھچکا لگا ۔ اور گذشتہ سال صرف پانچ مہینوں کے دوران سیاحت کو 10 ارب چالیس کروڑ روپے کا نقصان ہوا ۔ جس کے نتیجے میں سیاحت سے وابستہ 8 لاکھ 80ہزار لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ لیکن امسال حکومت نے کویڈ 19 کے ماحول میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ سیاحت کی دوبارہ اجازت دی ہے ۔ جس کا مقصد مہمان اور میزبان کی صحت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ سیاحت سے وابستہ افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔ ڈی جی ٹورزم سروسز نے کہا ۔ کہ خیبر پختونخوا ٹورزم ڈیپارٹمنٹ نے گذشتہ سال کویڈ 19 کی وجہ سے نقصان اٹھانے والے ہوٹلوں کے فیس معاف کر دیے ہیں ۔ اور امسال بھی فیس معافی کا مسئلہ زیر غور ہے ۔ انہوں نے گذشتہ سال چترال میں قرنطینہ سنٹر قرار دیے جانے والے ہوٹلوں کے بقایا جات کی آدائیگی میں ہر قسم تعاون کا یقین دلایا ۔ جن کی مجموعی مالیت تین کروڑ چالیس لاکھ روپے ہے۔ غلام سید نے ورلڈ بینک فنڈ سے سیاحوں کو سہولت دینے کیلئے دیر چترال شندور روڈ اور کالاش ویلیز روڈ پر واش رومز تعمیر کرنے کی یقین دھانی کی ۔ اور کہا ۔ کہ ٹورزم پولیس میں صرف مقامی افراد کو بھرتی کیا جائے گا ۔ ڈائریکٹر جنرل نے پائیدار سیاحت کیلئے جنگلات کی کٹائی روکنے اور ندی نالوں و دریا کے بہاو ایریا میں تجاوزات اور آلودہ پانی و کچرے پھیکنے کو سنگین جرم قرار دیا ۔ اور شرکاء کو ہدایت کی ۔ کہ وہ خود بھی اس سے پرہیز کریں اور دوسروں کو روکنے کیلئے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کاروائی کریں ۔ جس میں دریائے سوات کو آلودہ کرنے اور اطراف میں تجاوزات کرنے والوں کے خلاف فیصلہ صادر کیا گیا ہے ۔ انہوں نے چترال ٹورزم ایسوسی ایشن کی ورکشاپ میں دلچسپی پر اور اسے کامیاب بنانے پر ان کی تعریف کی ۔ اور چترال میں سیاحت کی ترقی اور سیاحوں کو سہولت دینے کے حوالے سے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ۔ ورکشاپ کے دوران سوال و جواب کے سیشن بھی ہوئے ۔ جس میں خصوصی طور پر صدر ٹورزم ایسوسی ایشن چترال سید حریرشاہ ، جمشید احمد اور شیخ فاروق اقبال نے سوالات اٹھائے ۔ جن میں ہوٹلوں کے قرنطینہ بقایاجات کی آدائیگی ، سیاحتی روٹز پر واش رومز کی عدم دستیابی ، سیاحتی مقامات کے خستہ حال اور دشوار گزار سڑکوں کی حالت بہتر بنانے میں مسلسل تاخیر ، بے ہنگم اور غیر منظم سیاحت کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کیلئے سٹریٹجی بنانے کی ضرورت ، سیاحوں کیلئے چترال شہر اور دیگر سیاحتی مقامات میں صاف پانی کی عدم دستیابی ، چیک پوسٹوں پر سیاحوں سے بار بار دستاویزات کی طلبی کی بجائے آن لائن سسٹم متعارف کرکے سیاحوں کو سہولت دینے ، سیاحت سے متعلق تربیتی ورکشاپ میں متعلقہ افراد کو مدعو کرنے اور فیسٹول بیسڈ ٹورزم کی بجائے عام سیاحت کو فروغ دینے کے حوالے سے تفصیلی سوالات کئے گئے ۔ جی ایم نے تمام سوالات سے اتفاق کیا ۔ اور کہا ۔ کہ ان مسائل پر بھر پور توجہ دی جائے گی ۔ اور ان مسائل کے حل کے سلسلے میں چترال ٹورزم ایسوسی ایشن کیلئے میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں ۔ ورکشاپ کے ریسورس پرسن جلیل احمد نے حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے احتیاطی تدابیر پر روشنی ڈالی ۔ اور کہا ۔ کہ ان ایس او پیز پر عمل کرتے ہوئے کویڈ کے ماحول میں بھی سیاحت کو ترقی دی جا سکتی ہے ۔ ورکشاپ میں اسسٹنٹ کمشنر چترال نے بھی بطور مہمان شرکت کی ۔ اور چترال انتظامیہ کی طرف سے صحت مند سیاحت کے فروغ کیلئے چترال ٹورزم ایسوسی ایشن و خیبر پختونخوا ٹورزم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ ہر قسم تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے سیاحت کیلئے چترال کی روایتی مہمان نوازی اور پر امن ماحول کی تعریف کی ۔ ورکشاپ کے دوران ہوٹلوں ، گاڑیوں وغیرہ میں ایس او پیز پر عملدرآمد کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا ۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔