دھڑکنوں کی زبان…”محکمہ تعلیم کے دو ویژنیری آفیسرز“….محمد جاوید حیات

گورنمنٹ ہائی سکول بمبوریت میں دو اساتذہ کے پنشن پہ جانے کے موقع پر سکول کے اساتذہ اور بچوں نے جانے والے اساتذہ کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔سخت ایس او پیزکے تحت تقریب مختصر اور پر رونق تھی۔۔ہر طرف اظہار عقیدت تھی بے لوث محبت تھی احترام تھا بچوں اور استاد کے درمیان محبت اپنی نوعیت کی بے لوث اور بے مثال محبت ہوتی ہے اس لیے اس محبت کا اظہار بھی انوکھا ہوتا ہے۔۔پروگرام میں گاؤں کے عمایدین اساتذہ طلباء اور باہر سے آئے ہوئے مہمانان گرامی شامل تھے۔۔میر محفل محکمہ تعلیم کے نہایت فعال محنتی قابل اور نوجوان آفیسر شاہد حسین ڈپٹی ڈی ای او ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیش (میل) چترال تھے۔محفل میں بہت ساری تقاریر ہوئیں جذبات کے اظہار ہوئے نغمے گائے گئے۔ اساتذہ کو تحفے تخائف پیش کیے گئے ان کو ہار پہنایا گیا۔ لیکن خاص طور پر جو چیز بہت نمایان تھی وہ محکمہ تعلیم کے دو نوجوان افیسرز کے ویژنری جذبات تھے ان میں سے ایک نوجوان energatic آفیسر شاہد حسین تھے انھوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔میرے پاس الفاظ نہیں ہیں میں کیسے کہوں کہ اساتذہ پنشن پہ جا رہے ہیں استاد معاشرے کا نبض شناس اور محسن ہوتا ہے اخلاق و کردار اسی کے ہاں پنپتے ہیں درست سمت رہنمائی ان کے ہاں سے شروع ہوتی ہے۔غیرت کے بیج سینوں میں وہ بوتا ہے شرافت کا جویا وہ ہے حق کا پرستار وہ ہے پھولوں کا نگہبان وہ ہے گلشن انسانیت کو وہ مہکاتا ہے نظروں میں شاہینی وہ بھر دیتا ہے اگر وہ واقع میں پنشن پہ جایے تو یہ معاشرہ ان تمام فیوض سے محروم ہو جائے گا کیا یہ ممکن ہے؟۔۔۔یہ ممکن نہیں ہے استاد پنشن پہ نہیں جائے گا اس کے فیوض و برکات مرتے دم تک رہیں گی۔بلکہ مر کر بھی استاد امر ہی ہوتا ہے اس لیے کہ یہ معاشرہ استاد کی یادوں سے مہکتا ہے۔انھوں نے سکول کے پرنسپل ثنا اللہ ثانی ان کے سٹاف علاقے کے عمایدین اور بچوں کے خلوص اور جذبے کو سراہا۔
شاہد صاحب ایک پیشہ ور استاد ہیں انھوں نے یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھا فارع ہو کر مسلسل چار دفعہ کمیشن ایپلائی کیا اور ہر بار کامیاب ہوا پہلے sst بنا پھر ss بنا پھر چترال یونیورسٹی کے اسسٹنٹ رجسٹرار بنے پھر ڈپٹی ڈی ای او بنے وہ کوئی بھی امتحان پاس کر سکتا تھا لیکن اانھوں نے استادی کا دامن نہیں چھوڑا ان کو معلمی سے عشق ہے پروگرام کے بعد میٹنگ میں انھوں نے اساتذہ سے گزارش کی کہ اس پیشے کے ساتھ شکر کریں اور اس کی قدر کریں انھوں نے اساتذہ کوان کے خلوص پر خراج تحسین پیش کیا۔پروگرام میں دوسرا نمایان آیٹم سکول کے پرنسپل ثنا اللہ ثانی کی لکھی ہوئی نظم تھی انھوں نے”الوداع مہ استاد“ کے عنوان سے بے مثال نظم لکھی تھی جس کو بچوں نے سٹیج پر ترنم سے پڑھی تو سارا مجمع رو پڑا ثنا اللہ ثانی بہت جوانی میں اٹھاروین گریڈ کے پرنسپل بنے ہیں انھوں نے کمیشن پاس کیا لیکن اس کو اپنی معلمی کے دائرے میں رہنا پسند ہے ان سے مل کر کسی کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ بڑے گریڈ کے آفیسر ہیں وہ بہ یک وقت اردو اور کھوار زبان کے ادیب شاعر سپورٹس مین مقرر اور کلاس روم کے بہترین استاد ہیں پی پی سی کالج بمبوریت میں ریگولر کلاسیں لیتے ہیں سکول میں جب بھی ان کو موقع مل جائے کسی کلاس میں گھس جاتے ہیں اور پڑھانے لگتے ہیں۔ثانی کے قلم میں جادو ہے انھوں نے اپنے خطاب میں علاقے کے عمایدین سے گزارش کی کہ ان نونہالان قوم کی تعلیم و تربیت میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں انھوں نے تعلیم کو قوموں کی زندگی میں ناگزیر مجبوری کہا۔انھوں نے کہا غیرت صلاحیت اور کامیابی اسی تعلیم سے آتی ہے۔پنشن پہ جانے والے اساتذہ شیر جہان صاحب اور عزیز الرحمن صاحب نے سب کا شکریہ ادا کیا اسی طرح محبت اور عقیدت کی یہ محفل پر تکلف چائے کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔