قدرت اپنا انتقام لے رہا ہے۔ ۔۔۔تحریر: عمران الہیٰ
پہاڑوں کے باسی چونکہ کارخانہ فطرت کے زیر نگیں ہوتے ہیں اس لئے یہاں کے رہنے والے صدیوں سے فطرت کے ساتھ “بنا” کے آرہے تھے۔ پھر ہوا یوں کہ تعلیم اور ٹکنالوجی کی تبدیلی آگی پہاڑ کے باسی کچھ زیادہ ہی پر اعتماد ہوگئے۔
جدت نے مادہ پرسی کو فروغ دیا جس میں پیسے بنانے کے لئے انسان کو قدرتی ماحول تک سے دشمنی مول لینا پڑا۔ فطرت کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے جنگلات کو جلایا گیا اور چراگاہوں کا صفایا کیا گیا۔ ماحول کو آلودہ کیا گیا، اور غیر منطقی تعمیرات سے زمین کا نقشہ بگاڑ دیا گیا۔
اب فطرت نے انتقام لینا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں environmental degradation نے جس تیزی سے چترال کے نقشے کو متاثر کیا ہے اور جس بیدردی سے یہاں کے مقامی معیشت کو تباہ کیا ہے وہ دوسرے علاقوں کے باسیوں کے نشان عبرت ہے۔
موجودہ چند دنوں کی مثال کو ہی لیجئے۔ ایک طرف وادی کیلاش میں بڑے پیمانے پر جنگلات میں آگ لگی ہے (یا لگائی گئی ہے) اور پورے وادی کی فضا میں دھواں پھیل گیا ہے اور وہاں کا habitate بھی تباہ ہو کے رہ گیا ہے۔ پورے علاقے میں پریشانی پھیل گئ ہے ہاں البتہ ٹمبر مافیا ضرور بانسری بجا رہا ہو گا۔ دوسری طرف ریشون گاوں میں چترال گلگت شاہراہ دریا کی کٹاو کی نظر ہو گیا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کی قیمتی زمینیں اور محنت سے جوڑے گئے مکانات دریا برد ہو گئے ہیں اور اپر چترال کا سارا علاقہ ملک کے دوسرے حصے سے کٹ کے رہ گئ ہے۔ ان دو واقعات کا تذکرہ تو بلکل تازہ ہے۔ ان سے ملتے جلتے واقعات ہر گاوں کا معمول بن گئے ہیں۔
اس کے باوجود کبھی ہمیں خیال نہ آیا کہ فطرت کے ساتھ ہم کرکیا رہے ہیں؟اس زمین کی اور کتنی بربادی ہوسکتی ہے؟ کوئی حد تو ہونی چاہیے ۔لیکن ہمارے ترقی کے ماڈل اس تکبرانہ مفروضے پہ مبنی رہے کہ ترقی کی کوئی انتہا نہیں۔ جتنا مرضی جنگلات اور چراگاہ کا ہم استعمال کریں، ستیاناس کریں کوئئ پوچھنے والا نہیں۔ جتنا مرضی ہم دھواں اورآلودگی آسمانوں کی طرف پھینکیں۔جتنی چاہیں دریا کی پانی کو بربادی کریں کوئی civic sense نہیں۔ کبھی کسی نے خیال بھی کیا کہ موٹرکار بڑی اچھی ایجاد ہے یا بھیڑ بکریاں پالنا ہمارے لئے سود مند ہے، لیکن کتنی موٹرکاروں اور کتنے مال مویشیوں کی یہ وادی متحمل ہوسکتی ہے ۔ unplanned کنسٹرکشن کا لامتناعی سلسلہ جاری رہے ۔ زرخیز زمین برباد ہوتے رہے بس Tin سے بنی عمارتیں بنتی رہیں۔ یہاں تک کہ ندی نالوں اورriver bed کے ارد گرد بھی تعمیرات کا سلسلہ جاری ہے۔ برداشت سے زیادہ کام انسان سے لیں تو بیمارپڑجاتاہے ۔ پھر اُسے آرام کرنا پڑتا ہے۔ ہم بھی کرہ ٔارض کی پیداوار ہیں ۔ جنم ہم نے یہاں لیاہے ۔ کبھی یہ نہ سوچا کہ دھرتی کتنا بوجھ اور تکلیف برداشت کرسکتی ہے ؟
۔اب فطرت کی باری ہے اب بھی ہم نے کچھ نا سیکھا تو خاکم بدھن آگے ہمیں فطرت سے اور بہت لتڑ کھانے پڑیں گے۔
اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں