قومی زبان کی ترویج و ترقی…محمد شریف شکیب

وزیر اعظم عمران خان نے تمام سرکاری تقریبات اور پروگرامات میں قومی زبان اردو کے استعمال کی ہدایات جاری کردی ہیں وزیراعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم جن تقریبات یا پروگراموں میں شرکت کریں گے ان میں اردو زبان کا استعمال کیا جائے۔متعلقہ اداروں اور افراد کو وزیراعظم کی ہدایات پر عملدرآمد کے لیے درکار ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے کہا کہ وزیراعظم نے احکامات دئیے ہیں کہ ان کے لیے مرتب اور منعقد کیے جانے والے تمام پروگرام، تقاریب، کانفرنس اور ایونٹ آئندہ قومی زبان اردو میں مرتب کیے جائیں گے۔وزیراعظم کا کہنا ہے کہ قومی زبان ہمارا فخر اور ہماری شناخت ہے اور جب دوسرے ممالک اپنی اپنی قومی زبان استعمال کرتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے وزیراعظم نے وفاقی وزراء اور سرکاری افسران کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ اپنا پیغام و تقاریر اپنی قومی زبان میں عوام تک پہنچائیں۔ عوام کی زیادہ تعداد انگریزی زبان نہیں سمجھتی، ان سے بدیسی زبان میں بات کرنا عوام کی توہین ہے جب بھی کوئی عوام سے جڑا پیغام یا تقریر نشر ہو، تو وہ ہماری قومی زبان اردو میں ہونی چاہئے۔ وزیر اعظم اس سے قبل سرکاری اداروں سمیت دیگر اہم امور کی انجام دہی کیلئے اردو کے بطور سرکاری زبان استعمال پر زور دیتے رہے ہیں۔ 2015 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر فوری نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔عدالت عظمیٰ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آرٹیکل 251 فوری طور پر نافذ کرنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کا اطلاق ہم سب پر فرض ہے،چیف جسٹس نے فیصلہ بھی اردو میں پڑھ کر سنایا تھا۔المیہ یہ ہے کہ جس نام کے ساتھ ”قومی“کا سابقہ یا لاحقہ لگ جائے اس کو ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخر میں رکھا جاتا ہے۔ قومی زبان اردو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا ہے۔ ملک کے تینوں دساتیر میں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا ہے 1973کے دستور کے آرٹیکل 251میں وفاقی اور صوبائی حکومت کو اردو کے نفاذ کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی مگر آج تک کسی حکومت نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی اور اب تک ہماری دفتری، عدالتی اور مراسلاتی زبان انگریزی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔پوری دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اقوام عالم کے ساتھ روابط اور جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کے لئے انگریزی زبان پر عبور ناگزیر ہے۔ مگر قومی زبان کی اپنی اہمیت ہے اردو زبان پاکستان میں بسنے والی مختلف قومیتوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے۔ہمارا ادبی اور ثقافتی اثاثہ بھی اسی زبان میں ہے۔ مگر حکومتی سطح پر قومی زبان کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک کیاجاتا رہا۔ کوریا، جاپان، چین، روس اور دیگر ممالک نے اپنی قومی زبانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان بنادی ہے۔ان کے سیاسی قائدین اقوام متحدہ کے اجلاس یا کسی بین الاقوامی کانفرنس سے بھی اپنی زبان میں خطاب کرتے ہیں جن کا انگریزی میں ترجمہ کرکے شرکاء کو سنایاجاتا ہے۔ جب وہ لوگ اپنی قومی زبان بولنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تو ہم اپنی قومی زبان بین الاقوامی فورمز پر بولنے میں کیوں عار محسوس کریں۔ اردو ہماری قومی زبان ہی نہیں بلکہ قومی یک جہتی، اپنی تاریخ سے شناسائی اور اسلاف کی میراث سے جڑے رہنے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ وزیراعظم نے قومی زبان کو ترقی دینے کے لئے اہم قدم اٹھایا ہے۔ توقع ہے کہ وہ اپنے احکامات کے عملی نفاذ کی بھی خود نگرانی کریں گے۔ تاکہ ہمارا قومی تشخص بحال ہوسکے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔