عوامی ضرورت کے ترقیاتی منصوبے…محمد شریف شکیب

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کا کہنا ہے کہ سکول، کالج، ہسپتال اور دیگرترقیاتی منصوبے سیاسی مفاد ات کے بجائے عوامی ضرورت کے مطابق شروع کئے جائیں گے۔ حکومت نے ترقیاتی سکیموں کے لئے ایک معیار مقرر کیا ہے۔ ماضی میں عوامی ضرورت کے بجائے سیاسی مفاد ات کو مقدم رکھا گیا جس کی وجہ سے قومی وسائل کا ضیاع ہوا اور ادارے بھی تباہ ہوگئے۔ پی آئی اے، پاکستان ریلوے، سٹیل مل اور دیگر سرکاری اداروں اور محکموں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہر سیاسی حکومت نے تھوک کے بھاؤ اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کومیرٹ کے برعکس ان اداروں میں بھرتی کرایا۔ ان ملازمین کی تنخواہوں، مراعات اور پنشن پر جتنی رقم سالانہ خرچ ہورہی ہے اس کا نصف بھی یہ ادارے نہیں کماپاتے۔ حکومت کو ہر سال ان اداروں کو خسارے سے نکالنے کے لئے بیل آؤٹ پیکج دینا پڑتا تھا۔ رفتہ رفتہ منافع بخش قومی ادارے ملک و قوم کے لئے نا قابل برداشت بوجھ بن گئے۔افراط اور تفریط دونوں نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بھی افراط و تفریط سے گریز اور میانہ روی اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ اس ملک میں گذشتہ چالیس پچاس سالوں کے دوران ایسے ہزاروں منصوبے شروع کئے گئے جن کی عوام کو ضرورت نہیں تھی۔ ان میں سے کچھ منصوبے تکمیل سے قبل ہی کھنڈر بن گئے اور کچھ حکومت کے خاتمے کی وجہ سے ادھورے رہ گئے۔ اور بعد میں آنے والی حکومتوں نے انہیں سرے سے ختم کردیا۔ ہمارے صوبے کے ہر ضلع اور ہر تحصیل میں سکولوں، ڈسپنسریوں، حفاظتی پشتوں، پلوں وغیرہ کے ایسے ادھورے منصوبوں کی باقیات آج بھی دیکھی جاسکتی ہیں جنہیں عوامی ضروریات کو پیش نظر رکھے بغیر چند افراد کو نوازنے کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ ان منصوبوں کا بجٹ ریلز ہوگیا، لوگوں نے اپنے اپنے حصے کھرے کر لئے اور رفو چکر ہوگئے۔ ایسے اکثر منصوبے غیر ملکی امداد اور قرضوں سے شروع کئے گئے تھے۔ جن سے اگرچہ عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا مگر ان قرضوں کی رقم سود سمیت آج بھی قوم ادا کر رہی ہے۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اپنے مفادات کے لئے قوم کو قرضوں کے دلدل میں پھنسانے والوں کا محاسبہ تک نہیں ہوا۔ آج قوم کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، پیرس کلب اور دیگر امدادی اداروں کی کڑی شرائط اگر ماننی پڑرہی ہیں۔اور شرائط سے روگردانی پر پاکستان کو کبھی بلیک لسٹ اور کبھی گرے لسٹ میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔آج قومی بجٹ کا ایک تہائی حصہ غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی پر خرچ کیاجاتا ہے۔ ہر آنے والی حکومت خود انحصاری کے دعوے تو کرتی رہی مگر ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی اور سود کی رقم واپس کرنے کے لئے بھی امدادی اداروں سے قرض لیتی رہی۔کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کی بنیادی اہمیت ہے۔ بغیر منصوبہ بندی کی ترقیاتی سکیموں سے قوم کو فائدے کے بجائے ہمیشہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ وزیراعلیٰ کے ریمارکس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت کا احساس ہوگیا ہے۔ حکومت ایسے منصوبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہتی ہے جن کی عوام کو ضرورت ہے۔ کیا ہی اچھا ہوکہ چھوٹے پیمانے پر شروع کئے جانے والے ترقیاتی منصوبوں کا بجٹ دیہی ترقیاتی پروگرام کی طرز پر ویلج سوسائیٹیوں کے حوالے کیا جائے تاکہ مڈل مین کا کردار ختم کیا جاسکے اور مختص رقم کی
پائی پائی اس منصوبے پر خرچ کی جاسکے۔ اس سلسلے میں نیشنل رورل سپورٹ پروگرام، اے کے آر ایس پی اور سرحد رورل سپورٹ پروگرام کا طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے۔ جو دیہی علاقوں میں گذشتہ کئی عشروں سے کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔