“شندور کیوں ہم سے دور”۔۔۔تحریر محمدکوثرکوثر(ایڈوکیٹ

قارئین ! پاکستان سیاحت کےشعبےمیں اتنا مالدار ملک ھے کہ اس ملک جیسا نعمت کسی رحمت سے کم نہیں مگر بدقسمتی سے یہ شعبہ کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رھی۔

وادی نیلم سے لیکر وادی مہران تک از کراچی تا گوادر و درہ خیبر سے تا بہ کوہ راکاپوشی از لاھور تا بہ خاک قشقار یعنی چترال مختلف زبانون میں روایات تاریخ ادب وغیرہ سب کے انوکھے اور دلچسپ انداز دنیا کےلیے سی جنت سے کم نہیں۔موسم چار اور زراعت کا گڑھ غرض جس اینگل سے بھی دیکھیں پاکستان سب سے بیسٹ ھے مگر سب سے نااھل “تھوئیرات”بھی ھم ھیں کہ اس طرف توجہ نہیں دے رھے۔
چترال میں منفرد کالاش کلچر اور کالاش کلچر سے بھی دلچسپ کھو کلچر اگر صحیح معنون میں دنیاکےسامنےپیش کیے جائین تو عجب نہیں کہ اکثر علاقے بنابنایا ٹورزم فیکٹریز بن جائین اور بےروزگاری کابھی خاتمہ ھو۔
مگر افسوس چترال میں امسال بھی خواہمخواہ کالاش فیسٹویل کو محدود کرنے کی وجہ سے جیسا نقصان ھوناتھا ھوا اور بدنامی الگ ھوئی اسی طرح شندور میلہ دنیا کےبلند ترین مقام پہ صدیون سے منایا جاتاھے ھزاروں سال پرانا فری پولو دنیامیں صرف چترال اور گلگت بلتستان میں ھی کھیلا جاتاھے۔اب سننےمیں آرھاھے شندور میلہ بھی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیاھے۔
اب ملکی قومی مالی خسارے کو گولی مارتےھیں۔ میرا سیدھا سادہ سوال یہ ھے کہ انتظامیہ کو یہ اختیار دیا کس نے ھے کہ وہ کسی قوم کی آئینی و قانونی حق کو اپنےھاتھ میں لیکر فیصلہ کرے۔?
جان کی امان پاتےھویے گذارش ھے کہ مثلا ڈی سی پنجاب کا ایس پی ایبٹ اباد کی اے سی صاحبان ماسوایے چندایک کے سب باھر کے وہ اگر پورے ملک کو چونا لگانا چاھیں تو شوق سے لگائین سانوں کی ! البتہ میرے لیے سب سے اھم سوال یہ ھے کہ اس قومی میلے کو نہ منانے کا فیصلہ کرنےوالےیہ کون ھوتےھیں? یہ چترال کی ثقافت اور چترال کا میلہ ھے کسی باھر سے آئے ھویے “اعلی حضرت “صاحبان کو یہ حق کس نے دیاھے کہ ھمارے روایات ثقافت و تفریح میں دخل دین۔گذشتہ چند سالون سے چترال کو جیل سا بنادیا گیاھے۔تمام روایتی ثقافتی ادبی تفریحی سرگرمیان سرکار نے قیضہ کیاھواھے اگر کوئی ایسا eventھو بھی تو سیکیوریٹی کےمحکمے ایسے پہرے دیتےھیں کہ گویا ہمیں جیل کے لاکاپ سے تھوڑاسا “دمہ نیزیکو بچین” باھر لائے ھوں۔
حالانکہ ھونا یہ چاہیےکہ یہ تمام پروگرامات میلے وغیرہ مقامی ایسوایشنز اور تنظیمون کے زیر نگرانی و مکمل اختیارات کےساتھ ھونی چاہیے۔سرکار انکے ساتھ مالی وسیکیوریٹی کےعلاوہ پروگرام یا فیسٹول کو کامیاب بنانے کی حد تک تعاون کرناچاہیے۔مگر چترال میں الٹی گنگا بہہ رھی ھے۔یہان پولو ٹیم ایسا سرکاری افسر ترتیب دیتاھے کہ جو میری طرح گھڑ سواری تو درکنار گھوڑے کے”سبک”سے بھی اشنا نہیں البتہ چند شاھی مزاج افسر آیے اور جنالی میں ادھر ادھر ھانک کے اپنارعب دبدبہ دیکھا کر چلےگیے ۔
شندور ھو یا چترال میلہ یا کوئی ادبی پروگرامات “اعلحضرت “ترتیب دیکر شاھی فرمان جاری کرتاھے۔
پھر اس کے “شہ درباک” فہرستین ترتیب دیتےہیں اور متعلقہ لوگون کو کچھ اس انداز سے پیغام بھیجتےہیں جیسے زرخرید ہوں۔
پھر وہان مہمان خصوصی بھی زبردستی سے وہ خود بنتے ہیں ۔ایک کیپ سر پہ ترچھی انداز میں ھوگا جوگر پہنے ٹراوزر یا پینٹ شرٹ اگر پولیس ھو تو “تمغے”لہرایے “ڈیکان ڈیکان سوری پیچھی”آکے تخت صدارت پہ ایسے بیٹھنگے کہ “کیہ کی جمار غونی”۔ انکےحرکات وسکنات دیکھ کر “تہ لئی اوسی گوئے مگم کیان کورین بوئے”؟
میں 1994میں شندور فیسٹول اپنی گناھگار آنکھون سے دیکھا کہ اعلی خیمے و دیگر سہولیات بلکہ آدھےشندور پہ وایسرایے صاحبان اور انکے “شادرباکان” قبضہ ھے اور سیاح مرتا کیا نہ کرتا کےمصداق اپناٹینٹ لگاکےرات سردی میں “دوڑاو” صبح کرتےتھے۔اس وقت وھان سرکار کےنخرون کو دیکھ کر اس میلےکو “تھوت”کرکے دوبارہ دیکھنےنہ گیا۔چنکہ بچپن سے میں اسی طرح منہ پھٹ تھا سوات پہنچ کر ابو کو جب سرکاری نخرون کا داستان ایسا بتایا کہ گویا شکایت لگارھاھون ۔قبلہ محترم مزید سنے بےغیراپنے “پیٹی بندوں”کےحق میں یکدم فیصلہ صادر کیا اور کہنےلگا کہ اگر بیوروکریٹ نہ ھوتے تو اس ملک کو کوئی نہیں سنبھال پاتے۔قبلہ مرحوم کے انداز کو دیکھتےھویے تان پولی ژانو تان پولی پھوستہ تھئیے مزید کچھ کہنےسے گریز کیا کہ قبلہ مرحوم ومغفور دلیل کے قایل نہ تھے بلکہ سیدھےسادھےطریقےسے ذلیل کرنےکو ترجیح دیتےتھے۔
بہرحال اب سوشل میڈیا ایسے فیسٹولز کو دنیاکو اپنی جانب راغب کرنےکا بہترین ذریعہ ہے۔

آمدم برسر مطلب کہ خبرھے مقامی پولو ایسوایشن نے “بغاوت”کاعلم بلند کرکے اپنی زیرنگرانی شندور میلہ منعقد کرنےکا فیصلہ کیاھے?اگر واقعی ایساہے تو یہ بہترین فیصلہ ہےاگر پولوایسوایشن مظبوط فیصلےلے تو انتظامیہ پولوایسوایشن کےتعاون کےبغیر گدھا پولو منعقد نہیں کراسکتی۔باقی دیوانہ بکار خود ھوشیار۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔