دھڑکنوں کی زبان…”ڈاکٹر عتیق سپیریئرسائنس کالج کا ہنستا مسکراتا پرنسپل“…محمد جاوید حیات

بڑے لوگوں کا کلچر ہی ایسا ہے کہ وہ اپنی بڑائی جتاتے رہتے ہیں اس لیے چھوٹوں پر ان کے بڑا پن کا خبط سوار رہتا ہے۔۔میں ہائی سکول بمبوریت کے لان میں بیٹھے بیٹھے اونگنے لگا تھا کیونکہ مجھے ایک”بڑے“ کا انتظار تھا بڑا سائنس سپیریئر کالج پشاور کا پرنسپل تھا یہ امتحانی سنٹروں کے انسپکشن پہ آرہا تھا۔اس سے پہلے بھی چھوٹے موٹے لکچررز اور دوسرے عملے آتے رہے تھے اور ان کے بڑے پن کے بت کے سامنے ہم بونے سے لگتے۔ دن12 بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے کہ ایک روشن چہرہ سکول کے گیٹ سے اپنا بڑا بیگ خود اٹھائے نمودار ہوئے۔میں استقبال کو اٹھا سلام کے بعد آپ نے نہایت ادب سے کہا۔۔۔جاوید حیات۔۔۔میں نے کہا سر حاضرہوں۔۔آپ نے مسکرا کر بلکہ قہقہ لگا کر سینے سے لگایا۔۔یہ”بڑا“ ہے؟۔۔۔سوال ذہن میں گردش کرنے لگا۔ہم نے حال احوال پوچھا ہر جواب پہ دلکش مسکراہٹ تھی چہرے میں چاند کی چاندنی جیسا نور۔۔آنکھوں سے جوانی اب گئی نہیں۔۔ عمر پچاس یاتھوڑا کم یا زیادہ ہو۔لمبوترہ قد۔۔ قد کاٹ عضب کی دلکش۔آواز محسور کن انداز انوکھا باتوں سے خوشبو۔اردو بولے تو باتوں سے خوشبو آئے۔پشتو مادری زبان۔۔شریف مہذب محترم اور وضعدار۔بڑاپن آپ کی عظیم شخصیت میں کہیں گم۔۔۔۔لگا سالوں کا یارانہ ہے۔ہم نے باتوں باتوں میں تعلیم اور عہدے کا پوچھا۔۔عہدہ بلا جھجھک بتایا۔تعلیم پہ ایک ادھ قہقہہ لگا یا۔۔بھائی Math کا بندہ ہو ں۔۔ہمMaths بولتے ہماری حیرانگی محسوس کرتے ہوئے کہا۔بھائی ساری دنیا میں لوگMath بولتے ہیں پھر قہقہہ لگا کر کہا صرف پاکستان میں Maths..ساری دنیا کہنے سے ہم ذرا چونک پڑے۔۔۔سر آپ کی تعلیم کہاں سے ہوئی۔۔میرا گاؤں ؎پشاور سے ذرا دور تھا میٹرک تو خیر اچھا خاصا ہوا پورے صوبے میں تیسرا نمبر تھا۔پھر کیا ہوا کہ اٹھلیٹ بننے کا شوق چڑآیا۔Short running میں مشق کرنے لگا۔ریلوے کی ٹیم میں گیا اور ٹرینگ کیمپ میں رہنے لگا۔۔۔ پھر باہر ملکوں میں مقابلے کے لیے جانے لگا۔ایف ایس سی میں بمشکل فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا۔ابو کی ناراضگی نے چونکا دیا تو آگے محنت کرنے لگا۔بی ایس سی اور ایم ایس سی میں ٹاپ کیا۔ایم ایس سی کی ڈگری بھی نہیں ملی تھی کہ ڈی ایم سی سے لکچرر بن گیا دوسال پڑھایا تو باہر ملک کا شوق چڑآیا۔کچھ قرض لیا کچھ خود انتظام کیا تو برطانیہ پہنچ گیا ایم فل میں داخلہ مل گیا تو اللہ نے پیسوں کا انتظام ایسا کیا کہ مجھے سپروایزر رحم دل اور اچھا ملا ااُنہوں نے مجھ سے ایک سکول میں ٹیچنگ کے لیے ٹسٹ دلوایا میں پاس ہوگیا اور پیسوں کا انتظام ہوگیا مجھے Cardif University لندن میں Bio Mathمیں ایم فل میں داخلہ مل گیا میں نے ایم فل مکمل کی توپی ایچ ڈی کے لیے Brunel University میں داخلہ لیا۔خوب ڈٹ کے پڑھا اور Cumputational Genetic میں پی ایچ ڈی کر لیا۔۔ میں نے اپنی پی ایچ ڈی کا ڈیفنس بھی نہیں کیا تھا کہ چار یو نیورسٹیوں سے پڑھانے کی افر آئی۔۔ڈاکٹر عتیق اللہ جان نے آہ بھر کر کہا جاوید مغرب میں لوگ کسی کا ٹیلنٹ ضائع نہیں کرتے اور آپ سے خوب کام کرواتے ہیں۔ڈاکٹر صاحب شکوہ کنان تھے کہ میں وہاں پر پی ایچ ڈی کا طالب علم تھا تو صاحب سات بجے یونیورسٹی جاتا اور شام سات بجے آتا اور میں نے پانچ سال میں اپنا ایم فل اور پی ایچ ڈی مکمل کرلیا۔میرے پی آیچ ڈی کا مقالہ کئی مراحل سے گزرا۔اب یہاں میرے پاکستان میں پی ایچ ڈی کے سٹوڈنٹ دو گھنٹے بھی کلاس میں نہیں بیٹھتے۔ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہم ہمت ہارے ہوئے لوگ ہیں۔ہم کسی بھی کامیابی کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔
ڈاکٹر صاحب سے جب دریافت کیا گیا کہ لندن چھوڑے کیوں؟آپ نے بڑے درد سے کہا کہ میری بچی پانچ سال کی ہو گئی تو لندن چھوڑ گیا کیونکہ وہاں پر اولاد ہاتھ سے نکل کر اس کلچر میں ڈھل جاتے ہیں اور دائرہ اسلام سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔۔ڈاکٹر صاحب کٹر مذہبی ہیں با وضو رہتے ہیں بچی قران عظیم الشان حفظ کر رہی ہے گھر میں ٹی وی کیبل وغیرہ کچھ بھی نہیں۔روایات اور مذہب ان کی پہچان ہے گھر والی ڈاکٹر ہیں اور خدمت خلق ان کی بھی پہچان ہے۔۔ڈاکٹر عتیق کو اس بات کی فکر ہے کہ ہم مغرب زدہ ہیں دو چار انگریزی بولتے ہوئے اٹھلاتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں کہتے ہیں مغرب کی تعلیمی اداروں اور نظام میں اخلاق نام کی کوئی چیز شامل نہیں بچہ بے لگام ہے گرل فرینڈ وغیرہ طلباء کی Activities میں شامل ہیں۔ ان کو صرف پڑھنے کا ہنر سیکھایا جاتا ہے تربیت نہیں کی جاتی۔معاشرتی مسائل ہیں ٹیکسوں کا بے انتہا بوجھ ہے Hand to Mauth زندگی ہے ڈاکٹر صاحب اصول پسند اور کھرے بندے ہیں لگتا ہے آپ کا کھراپن آپ کی سادگی سے عیان ہے۔ڈاکٹر صاحب سے نصف دن کی ملاقات تھی لیکن ہمیں اس ظالم نے اپنا گرویدہ بنا لیا ان سے مل کر انسانیت سے پیار آگیا اور اپنے ملک پر بھی کہ پاک سر زمین انسانی موتیوں سے بھری پڑی ہے۔ان کی صلاحیتیں بے مثال ہیں ان کو موقع مل جائے اور ان کو خدمت کا موقع دیا جائے تو وہ اس ملک کو کہاں سے کہاں تک پہنچا سکتے ہیں۔لیکن یہاں پر”ٹیلنٹ“ کی قدر نہیں ہے۔ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے اس ادھ دن کے لمحے ایک طرف چند ثانیے ہیں دوسری طرف پوری زندگی ہیں ایسے نابغہ روزگار لوگ خال خال ملتے ہیں۔سائنس سپیریئر کالج آپ کی لیڈرشپ میں ترقی کرے گا اور خوش قسمت ہیں وہ سٹاف اور طلباء جو آپ کی نگرانی میں ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔