لندن میں پراسرار ملاقاتیں…محمد شریف شکیب

برطانیہ میں مقیم پاکستان کے سابق وزیرا عظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائدمیاں نواز شریف سے افغانستان کے مشیرقومی سلامتی حمد اللہ محب کی زیر قیادت تین رکنی وفد نے ملاقات کی ہے۔ ملاقات کے دوران خطے کی موجو دہ صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پر گفتگو کی گئی۔افغان سلامتی کونسل کی جانب سے جاری کئے گئے پیغام میں ملاقات کی خبر کے ساتھ تصویر بھی شیئر کی گئی ہے۔ملاقات کے بعد افغان حکام کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات کے دوران فریقین کی جانب سے اس بات پر اتفاق کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اورباہمی احترام کی پالیسی سے فائدہ اٹھائیں گے اورجمہوریت کی مضبوطی دونوں پڑوسیوں کو استحکام اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرے گی۔ملاقات کا اہتمام سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کیا تھا۔ جوخود بھی ملاقات میں موجود تھے۔ حمد اللہ محب نے نواز شریف کو افغان صدر اشرف غنی کا پیغام بھی پہنچایا۔ نوازشریف نے افغانستان میں پائیدار قیام امن کے لیے تجاویز دیں اوراپنی حکومت کے دور میں افغان حکومت سے بہتر تعلقات کی مثالیں بھی دیتے رہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے نریندر مودی ہو، حمد اللہ محب ہو یا امراللہ صالح۔ہر پاکستان دشمن نواز شریف کا قریبی دوست ہوتاہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو باہر بھیجنا خطرناک تھا کیونکہ ایسے لوگ پاکستان کے خلاف عالمی سازشوں میں مددگار بن جاتے ہیں۔نواز شریف کی صاحبزادی مریم صفدر نے اپنے والد سے پاکستان دشمن افغان رہنماؤں کی ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف اپنے تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی پالیسی پر گامزن ہیں یہ ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح اور مشیر قومی سلامتی حمد اللہ محب کے اسمبلی کے اندر اور باہر پاکستان مخالف بیانات کسی سے پوشیدہ نہیں۔انہوں نے پاک فوج، حکومت پاکستان اور یہاں کے عوام کے خلاف ہمیشہ غلیظ زبان استعمال کی ہے۔اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے اور ایک قومی سیاسی جماعت کے قائد کی پاکستان کے دشمنوں سے ملاقات کا جو بھی جوازپیش کیاجائے وہ ناقابل قبول ہے۔ نوازشریف ایک سزایافتہ آدمی ہے جسے پاکستان کی عدالتوں نے مجرم قرار دیا ہے۔ اس کا خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے میں کیا کردار ہوسکتا ہے؟ پاکستان مخالف افغان لیڈروں کی اسحاق ڈار کے ذریعے لندن میں نواز شریف سے ملاقات پر کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں اگر افغان حکومت کے نمائندے چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قوتیں قیام امن میں اپنا کردار ادا کریں تو انہیں پاکستان آکر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کرنی چاہئے تھی وہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان، اے این پی کے لیڈروں،بلوچ سیاسی قیادت اور حکمران جماعت تحریک انصاف کے قائدین سے ملاقات کرکے قیام امن کے لئے تعاون کی درخواست کرسکتے تھے۔ حمد اللہ محب افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ رہے ہیں جن کے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ پرانے اور گہرے مراسم ہیں۔ حکومتی اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ افغان وفد نواز شریف کے پاس افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا خصوصی پیغام لے کر گئے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف
اپنے علاج کے بہانے پاکستان سے فرار ہوئے ہیں۔ انہیں عدالتوں نے عوامی نمائندگی کے لئے نااہل قرار دیا ہے۔ اور یہ بات ان کے ملاقاتیوں کو بھی بخوبی معلوم ہے۔ پاکستان کے مخالفین سے ان کی ملاقاتوں سے ان کے اپنے سیاسی مستقبل اور ان کی پارٹی پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔مسلم لیگ ن کی قیادت کو اس حوالے سے اپنے رہنما سے وضاحت طلب کرنی چاہئے اور اس ملاقات کے مقاصد قوم کو بتانے چاہیئں کیونکہ دشمن کا دوست بھی تو دشمن ہی ہوتا ہے۔اور دشمن سے ہاتھ ملانے والا اپنے ملک اور قوم کا وفادار اور لیڈر نہیں ہوسکتا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔