اثاثے چھپانے پر اتفاق…محمد شریف شکیب

حزب اختلاف اور حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کی ویب سائیٹ پر اپلوڈ کرنے کے عمل کو سیکیورٹی رسک قرار دیا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندوں کا موقف ہے کہ آج ہر آدمی کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت ہے جب ہماری دولت اور اثاثوں کا علم لوگوں کو ہوجائے تو ہمارے بچے غیر محفوظ ہوجائیں گے۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ اثاثوں کی تفصیلات منظر عام پر لانے کے معاملے پر سیخ پا ہوگئے۔انہوں نے اثاثے ظاہر کرنے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے سیکشن 138 ختم کرنے کی تجویز دے دی۔پیپلزپارٹی کے فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی تفصیلات اپلوڈ کرنے سے ارکان کی پرائیویسی ختم ہوجاتی ہے آپ کیا چاہتے ہیں کہ لوگ آکر میرے بچوں کو اغوا کرلیں۔ اس عمل سے ہم خودلوگوں کو دعوت دے رہے ہیں کہ آئیں۔ ہمارے بچوں کوتاوان کے لئے اغوا کریں۔ اگر کسی کو اراکین کے اثاثوں کی تفصیلات درکار ہوں تو الیکشن کمیشن سے لے سکتا ہے۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے ارکان کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ تفصیلات اپلوڈ کرنے سے صورتحال خراب ہو سکتی ہے۔ماضی میں فاٹا کے لوگوں کو افغانستان سے بھتے کے لئے کالز آتی تھیں۔ہمارے ہاں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قومی اسمبلی اور سینٹ میں صرف اپنے فائدے کی باتوں پر ہی اتفاق ہوتا ہے خواہ وہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہیں اور مراعات میں اضافے کا معاملہ ہو یا عوامی عہدے کی بدولت جمع کی گئی دولت کو محفوظ بنانے کا ایشو ہو۔ پارلیمنٹ میں محمود و ایاز ایک ہی صف میں آکر کھڑے ہوتے ہیں لیکن جب عوامی مفاد کے کسی معاملے پربحث ہو تو ہر ایک اپنی بولی بولنا شروع کردیتا ہے۔ خلیفہ اسلام حضرت عمر فاروق پر بھرے دربار میں مال غنیمت میں سے زیادہ حصہ لینے پر اعتراض کیا گیا۔ خلیفہ کو وضاحت دینی پڑی کہ ان کے بیٹے نے اپنے حصے کا کپڑا مجھے دیا تھا۔ہمارے منتخب عوامی نمائندوں کو اپنے اثاثے عوام سے چھپانے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے۔ کہ وہ معلوم آمدن کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ بچوں کے اغواء کا خدشہ محض ایک بہانہ ہوسکتا ہے دراصل ہمارے منتخب نمائندے نہیں چاہتے کہ سرکاری دستاویز میں ان کی دولت، جاگیر اور جائیدادوں کی تفصیل قومی احتساب بیوروکے ریکارڈ پر آجائے۔پھر انکوائریاں شروع ہوجائیں، پیشیاں بھگتانی پڑیں اور گلو خلاصی کے لئے پلی بارگین کا سہارا لینا پڑے۔ اپنی حیثیت اور ضرورت سے زیادہ دولت جمع کرنے کا یہی نقصان ہے کہ اس دولت کی حفاظت کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے۔اثاثے چھپانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان پر ٹیکس نہ دینا پڑے۔کیونکہ ہمارے متمول لوگوں کو ٹیکس دینے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ حکومت اکثر کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے سکیموں کا اعلان کرتی رہتی ہے۔ مگر کالا دھن اتنا زیادہ ہے کہ اسے سفید کرنے میں شاید برسوں لگ جائیں۔ بے شمار دولت بھی بڑی مصیبت ہے اس کو بچائے رکھنے کے لئے انسان کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون غارت ہو جاتا ہے۔ہر وقت کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کسی کو ان کی دولت کی بھنک نہ پڑجائے۔ ان سے اچھی زندگی تو ہم لوگوں کی ہے۔ بقول مرزا اسد اللہ خان غالب۔”نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا۔ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو“ہماری پرسکون اور پریشانیوں سے آزادزندگی کا راز ہماری قلاشی ہے۔ ہم بھی ان رہزنوں کو دعائیں دیتے ہیں جنہوں نے ہماری حصے کی دولت بھی اپنے دامن میں سمیٹ لی اور ہمیں لٹ جانے کی فکر سے آزاد کردیا۔ الیکشن کمیشن کو عوام کے تجسس کی تسکین کے لئے منتخب نمائندوں کے اثاثوں کو ضرور منظر عام پر لانا چاہئے۔خواہ ان کی پرائیویسی متاثر ہی کیوں نہ ہو۔ تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ غریب عوام پر حکمرانی کرنے والوں کے پاس کتنی دولت ہے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔