کیسوگاؤں۔قلت آب کا شکار،اے ڈی پی سکیم کے تحت منظورشدہ واٹرسپلائی سکیم کے لیےبالاتاخیر ٹینڈر طلب کرنے کا مطالبہ

چترال(محکم الدین)قیام پاکستان کے بعد چترال کا کوئی نیم شہری علاقہ مسائل و پسماندگی کا تا ہنوز شکار رہا ہے تو وہ لوئر چترال کی تحصیل دروش کا نواحی گاوں کیسو ہے۔ تقریباًچار ہزار کی آبادی والا یہ گاؤں جہاں ترقیاتی منصوبوں سے محروم ہے،وہاں بنیادی انسانی ضرورت پانی کی نایابی اس کا سب سے گھمبیرمسئلہ ہے کیونکہ اس علاقے کو آب نوشی اور آبپاشی دونوں مسائل کا سامنا ہے۔ کیسو وسیع و عریض آراضی پر مشتمل بے آب وگیاہ گاوں ہے جس کا 15 فیصد حصے پر آبپاشی کیلئے انتہائی قلیل پانی دستیاب ہے جبکہ80 فیصد رقبہ پانی کی عدم دستیابی کے سبب کسی بھی قسم کے فصل اگانے سے قاصر ہے۔ جہاں درخت اور فصلیں موجود ہیں ان کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور یہاں کے درختوں فصلوں کے پتوں اور لوگوں کے چہروں پر تشنگی کے آثار واضح نظر آتے ہیں۔ گاؤں کے لوگوں کو اڑتالیس گھنٹے بعد جو پانی فراہم ہوتی ہے وہ بھی پینے کے قابل نہیں لیکن زندہ رہنے کیلئے وہ یہی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ کیسو گولدہ اور کیسو بالا میں جب پانی کی مقدار قدرے بہتر تھی تو کیاری نما کھیت کھلیانوں میں فصلیں لہلہاتی تھیں لیکن اب یہ قصہ پارینہ بن چکا ہے کیونکہ فصلوں کو سیراب کرنے والا وہ پانی ختم ہو چکا ہے اور فصلوں کی کاشت ایک خواب کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ کیسو گاوں کے ان گھمبیر مسائل کو اجا گر کرنے اور ارباب اختیار تک پہنچانے کیلئے چترال پریس کلب نے حسب روایت کیسو گاوں میں پریس فورم کا انعقاد کیا اور صدر پریس کلب ظہیرالدین کی قیادت میں صحافیوں کی ٹیم نے علاقے کا دورہ کیااور ان کے مسائل سنی۔ اس موقع پر علاقے کے عمائدین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ سابق تحصیل ناظم اور رہنما پاکستان تحریک انصاف سرتاج احمد خان نے خصوصی طور پر پریس فورم میں شرکت کی۔ علاقے کے عمائدین میں ریٹائرڈ استاد شمشیر دستگیر، سابق ناظم کیسو شیرین خان، سابق ممبر تحصیل کونسل عبدالسلام، سماجی کارکنان صمصام دستگیر، ذوالفقار احمد، قاضی ولی الرحمن، چیرمین زکواۃ کمیٹی احمدالدین، میر عجب خان، رہنما پی ٹی آئی نثار دستگیر، ریٹائرڈ صوبیدار فضل الہی جمشید احمد، حاجی محترم شاہ، محمد نواز، اظہاراللہ مجاز اور رحمت ولی شاہ نے علاقہ کیسو کے مجموعی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ پینے کے پانی کے سلسلے میں کیسو کے لوگ اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ دشت کربلا میں اہل بیت کی تشنگی میں مماثلت کی وجہ سے اس کا نام کربلا رکھنے کا سوچا جارہا ہے تاکہ حکومت کویہاں کے لوگوں کی مجبوری کا احساس ہو سکے۔ یہ چترال کاواحد گاوں ہے جہاں پبلک ہیلتھ کا کوئی بھی منصوبہ آج تک تعمیر نہیں ہوا ہے حالانکہ علاقے کے نمائندوں نے پانی کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیر تعمیر لاوی ہائڈل پاور سٹیشن کیلئے ٹنل کی تعمیر کی وجہ سے اس گاوں کے چشموں کے زیر زمین روٹس متا ثر ہوئے ہیں اور چشموں کے پانی کی مقدار میں ناقابل یقین حد تک کمی ہوئی ہے جس کے باعث لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ چار ہزار ایکڑ قابل کاشت اراضی پرفصلوں کی کاشت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور درخت سوکھ چکے ہیں۔ عمائدین نے کہا کہ ستر سالوں میں ان کی تکالیف کا کسی حکومتی ادارے اور نمائندوں نے احساس نہیں کیااوریہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں معاون خصوصی وزیر اعلی وزیر زادہ اور سرتاج احمدخان نے لوگوں کی مشکلات کا احساس کیا اورمسلسل کوشش کرکے وزیراعلی خیبر پختونخوا سے اے ڈی پی سکیم کے تحت واٹر سپلائی سکیم کیلئے 12 کروڑ چالیس لاکھ روپے منظور کرائے جس کیلئے وہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان معاون خصوصی وزیر اعلی وزیرزادہ اور رہنما پاکستان تحریک انصاف سرتاج احمد خان کے مشکور ہیں۔ عمائدین نے مطالبہ کیا کہ علاقے کی مجبوری کے پیش نظر بلا تاخیر منصوبے کیلئے ٹینڈر طلب کئے جائیں اور جتنی بھی تیزی ممکن ہو کام کا آغاز کیا جائے تاکہ کیسو کے لوگوں کو پانی کی مشکلات سے نجات مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی تاریخ کا کیسو گاوں کیلئے اہم ترین منصوبہ ہے۔ جس سے کیسو کے لوگوں کی زندگی میں بہت تبدیلی آئے گی۔ علاقے کے معروف شخصیت شمشیر دستگیر نے یہ بھی مطالبہ کیا۔ کہ پچھلے سال واٹرسپلائی سکیم کیلئے چار کروڑ روپے منظور ہوئے تھے لیکن وہ سکیم کیلئے ناکافی ہونے کی بنا پر منصوبے پر خرچ نہیں ہو ئے جنہیں اب سولر ایریگیشن سسٹم کی تنصیب پر خرچ کرکے علاقے پر رحم کیا جائے۔علاقے کو درپیش دوسرے مسائل میں انہوں نے گورنمنٹ گرلز مڈل ہائی سکول کو ہائی کا درجہ دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ880گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں سے طالبات کو مڈل کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑتا ہے چنانچہ مڈل کے بعد یہاں بچیوں کی ڈراپ آؤٹ کی شرح 95فیصد سے ذیادہ ہے۔ انہوں نے بیسک ہیلتھ یونٹ کیسو میں ادویات کی کمی کو بھی پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔ مین روڈ سے کیسو بالا تک سڑک کی کشادگی اور پختگی کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھاکہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی شاہراہ عام سے دور واقع دیہات کو اپنے مریض چارپائی پر ڈال کر سڑک تک لے جانا پڑ رہا ہے اور لنک روڈ کی جو ضرورت یہاں درپیش ہے، وہ اور کہیں نہیں۔ سرتاج احمدخان نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ چترال کے دوسرے علاقوں کی طر ح کیسو کے عوام کو بھی تاریخ کی اس موڑ کا احساس کرتے ہوئے اس کے لئے تیاری کرنی چاہئے کیونکہ لواری ٹنل کی تکمیل، ارندو اور شاہ سدیم کے بارڈر کھل جانے کے بعد اس علاقے میں بڑے پیمانے پر معاشی سرگرمیوں کا آعاز ہوگا اور چترال تجارتی سرگرمیوں کا گڑھ بننے والا ہے۔ا نہوں نے کہاکہ اس صورت حال کے لئے تیاری نہ کرنے پر یہاں کے عوام کو ہمیشہ کے لئے معاشی محکومی کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے ابھی سے اپنے آپ کو ہر میدان کے لئے تیار رکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی حکومت کا چترال کے لئے ایک عظیم تحفہ کیسو گاؤں کے قریب اکنامک زون کا قیام ہے جہاں پلاٹوں کی بکنگ جاری ہے اور اس پر کام عنقریب شروع ہوگااور اس صنعتی زون سے کیسو گاؤں کے سوفیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔انہوں نے کیسو میں زنانہ ہائی سکول سمیت دیگر مسائل کے حل کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی اور عوام کو آپس میں اتحاد واتفاق سے رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ یہی اجتماعی ترقی کا پہلا زینہ ہے۔ چترال پریس کلب کے صدر ظہیر الدین نے کہاکہ دوردراز علاقوں میں جاکر عوام سے ان کے مسائل معلوم کرنے کے سلسلے میں کیسو گاؤں آکر معلوم ہوا کہ اس گاؤں میں پانی کی شدید قلت سے متعلق لوک کہانیاں کس قدر درست ہیں اور ریاست چترال کے سرکاری دستاویز میں کیسو میں پانی کو آب حیات لکھاگیا ہے۔ انہوں نے اہالیان کیسوکو یقین دلایا کہ وہ اور ان کے رفقاء کار اس مسئلے کو میڈیا میں اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔