وزیراعلیٰ محمود خان ضم اضلاع میں لوگوں کو علاج معالجے سمیت زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے کاموں کی خودنگرانی کر رہے ہیں۔

پشاور(چترال ایکسپریس)موجودہ صوبائی حکومت ضم شدہ قبائلی اضلاع میں لوگوں کو علاج معالجے کی بنیادی سہولیات کی مقامی سطح پر فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے ایک مربوط حکمت عملی کے تحت ٹھوس اقدامات اُٹھارہی ہے ۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان ضم اضلاع میں لوگوں کو علاج معالجے سمیت زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے کاموں کی خودنگرانی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم کے طور پر ضم اضلاع کے مراکز صحت میں ڈاکٹروںسمیت دیگر طبی عملے کی بھرتیوں کا عمل جاری ہے ۔ وزیراعلیٰ کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں ضم اضلاع کے مراکز صحت کیلئے حال ہی میں 1263 مختلف عملے کی بھرتیوں کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے ۔ نئے بھرتی ہونے والے طبی عملے میں 26 سپیشلسٹ ڈاکٹرز ، 53 ایمرجنسی میڈیکل آفیسرز ،251 میڈیکل آفیسرز ، 481 نرسز کے علاوہ 452 پیرا میڈیکل عملہ شامل ہیں۔یہ عملہ رواں سال تیز رفتار عمل درآمد پروگرام کے تحت بھرتی کیا گیا ہے۔ پروگرام کے تحت مزید74 اسپشلسٹ ڈاکٹرز، 166 ایمرجنسی میڈیکل آفیسرز ، 49 میڈیکل آفیسرز اور متعدد پیرا میڈیکل عملے کی بھرتی کا عمل جاری ہے جو جلد مکمل کیا جائے گا۔
اس سلسلے میں اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ نے ضم شدہ اضلاع کے عوام کو علاج معالجے کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو اپنی حکومت کی ترجیحات کا اہم جزو قرار دیتے ہوئے کہاکہ موجودہ صوبائی حکومت اس حوالے سے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اقدامات اُٹھارہی ہے اور صوبائی حکومت کے ان اقدامات کے نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ضم اضلاع کے عوام کو صحت اور تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات اُن کے گھروں کی دہلیز پر فراہم ہوں گی اور قبائلی عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی ۔ اُنہوںنے کہاکہ ضم اضلاع کے طبی مراکز کیلئے طبی عملے کی ان نئی بھرتیوں سے ان علاقوں میں علاج معالجے کی خدمات اور سہولیات کی فراہمی میں واضح بہتری آئے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا ضم اضلاع کیلئے طبی عملے کی بھرتی کے ساتھ ساتھ وہاں کے ہسپتالوں میں طبی آلات ، ادویات اور دیگر ضروریات کی فراہمی کیلئے بھی عملی اور نتیجہ خیز اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔