ہوائی سفر۔۔۔محمدشریف شکیب

خبر آئی ہے کہ دبئی کے ایک ہسپتال میں کام کرنے والا پاکستانی ڈاکٹر اپنے اہل خانہ سمیت خالی بوئنگ طیارے میں متحدہ عرب امارات پہنچ گیا۔ ڈاکٹر سید نادر کورونا کے باعث پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان فضائی سفر پر پابندی کے باوجود بوئنگ 777 طیارے میں اپنے گھر والوں کو لے کر یو اے ای پہنچ گیا۔3 سونشستوں والے طیارے میں ڈاکٹر کے ساتھ ان کی اہلیہ اور تین بچے سوار تھے۔ڈاکٹر سید نادر دبئی کے ایڈم وائٹل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں انہیں اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے کراچی آنا پڑا۔ والدہ کی بائی پاس سرجری کے بعد فوری دبئی واپس لوٹنا تھا۔گولڈن ویزہ کی بدولت انہیں خالی جہاز لے کر دبئی جانے کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر نادر کا کہنا ہے کہ سفری پابندیوں کی وجہ سے کئی ڈاکٹر پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ قومی فضائی کمپنی کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں کسی زمانے میں پی آئی اے دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہوتی تھی اس وقت پی آئی اے والے واقعی باکمال تھے اور ان کی سروس لاجواب تھی مگر اب وہ تمام کمالات معدوم ہوگئے۔ ایک جانب مالی نقصان کے بہانے ملک کے اندردرجنوں پروازیں ختم کی جاچکی ہیں جبکہ دوسری جانب عیاشیوں میں کمی نہیں آرہی۔ پشاور چترال روٹ پر گذشتہ تیس سالوں سے روزانہ تین تین پروازیں چلائی جاتی تھیں۔لوگ دس گنا سفری خرچ کے باوجود لواری کے طویل اور پرخطر سفر سے بچنے کے لئے فضائی سفر کو ترجیح دیتے تھے۔ ہفتہ دس دن پہلے بکنگ کئے بغیر ٹکٹ ملنا مشکل ہوتا تھا۔تین پروازوں کے باوجود مسافروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دیر سے دروش تک ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع کردی گئی۔ جب قومی ائرلائن کی کمر اپنے ہی بوجھ سے دوہری ہوگئی تو انہوں نے چترال روٹ پر روزانہ تین پروازوں کی تعداد گھٹا کر ایک پرواز کردی۔ کچھ عرصے بعد نامعلوم وجوہات کی بناء پر پشاور کی ایک پرواز بھی موقوف کرکے اسلام آباد سے چترال پروازیں شروع کردیں حالانکہ اسلام آباد چترال پرواز کی آدھی سیٹیں خالی رہتی ہیں۔اگر اسی پرواز کو اسلام آباد، پشاور، چترال پرواز میں تبدیل کیا جائے تو پی آئی اے اور عوام دونوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ آج کل ہفتے میں اسلام آباد اور پشاور سے دوتین پروازیں ہی چلائی جاتی ہیں حالانکہ پندرہ بیس سال پہلے کے مقابلے میں پشاور اور چترال کے درمیان سفر کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ساڑھے تین سو کلو میٹر اور35منٹ کی پرواز کا ٹکٹ سات ہزار روپے وصول کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں پشاور سے کراچی تک ایک ہزار سات سو کلو میٹرکے فاصلے کا رات کی پرواز کا کرایہ آٹھ نو ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہے۔ پی آئی اے کے علاوہ ملک میں کئی نجی فضائی کمپنیاں بھی کام کررہی ہیں انہوں نے چترال، سوات اور ڈیرہ کے لئے پروازیں شروع کرنے کی پیش کش بھی کی تھی مگر انہیں نامعلوم وجوہات کی بناء پر پروازوں کی اجازت نہیں دی جارہی۔خیبر پختونخوا حکومت نے سیاحت کے فروغ کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں، سوات اور چترال جانے والے ملکی اور غیر ملکی مسافروں کے لئے فضائی سفر سیکورٹی کے اعتبار سے سب سے محفوظ سفر ہے۔ صوبائی حکومت ان سیاحتی مقامات تک زیادہ سے زیادہ پروازیں شروع کرنے کے لئے وفاقی حکومت اور پی آئی اے انتظامیہ سے رابطہ کرے تو سیاحوں کو صوبے کے خوبصورت مقامات تک رسائی میں آسانی ہوگی۔ سیاحوں کی تعداد بڑھے گی تو مقامی لوگوں کو روزگار ملے گا، معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوگا اور حکومت کے وسائل میں بھی اضافہ ہوگا۔ آمدن بڑھے گی تو قومی فضائی کمپنی کا خسارہ بھی کم ہوگا۔اور اسے وفاق کی طرف سے بیل آؤٹ پیکج پر زیادہ انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔

اس خبر پر تبصرہ کریں۔ چترال ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں
زر الذهاب إلى الأعلى
error: مغذرت: چترال ایکسپریس میں شائع کسی بھی مواد کو کاپی کرنا ممنوع ہے۔